مائنس ون کی سیاسی تھیوریاں

September 15, 2022

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’نگران حکومت‘‘ کی تشکیل کے حوالہ سے کئی چہ میگوئیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ’’مائنس ون ‘‘ فارمولہ پر مبنی سیاسی تھیوریوں کی کہانیاں بھی گردش کر رہی ہیں۔ کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود بھی ڈالر پر آنے والے دباؤ کی صورتحال نے حکومت کی معاشی ٹیم کے لئے کئی سوال کھڑے کر رکھے ہیں۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے حکومتی حلقوں میں بھی اضطراب کی کیفیت محسوس کی جا رہی ہے ۔’’گڈگورننس‘‘ کے قیام کے لئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو افسر شاہی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے معاملات کے لئے تجاویز تیار کر رہی ہے۔

معاشی گرداب سے نکلنے کا فارمولہ

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں وزیر اعظم کی عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کو سیلاب کی تباہ کاریوں کی بنیاد پر ’’موخر‘‘ کرانے کی کوششوں کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم اس معاملہ میں دوست ممالک کے اثرورسوخ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی ’’انسانی بنیادوں‘‘ پر مداخلت کے لئے قائل کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم کو اعلیٰ سطحی اجلاس میں ماہرین معیشت نے تجویز دی تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے عالمی فورم کے ذریعے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو ’’موخر‘‘ کرا لیا جائے تو ’’معاشی گرداب‘‘ کے چنگل سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔ایک تجربہ کار ریٹائرڈ اعلیٰ بیوروکریٹ کی سربراہی میں ایک ٹیم کے ذریعے ملک کی ہنگامی صورتحال کے تناظر میں ’’و رکنگ پیپر‘‘ بھی تیار کروایا گیا ہے ۔ وزیراعظم امریکہ دورہ کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی معاونت سے اس فارمولہ پر عملدرآمد کروانے پر ترجیحی بنیادوں پر کام کریں گے؟

فنکار بیوروکریٹ

صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایک صوبائی سیکرٹری سطح کے بیوروکریٹ کے اپنے افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے ’’سرمایہ کاری‘‘ کے بہانے بھاری رقوم ہتھیانے کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔مذکورہ اعلیٰ بیوروکریٹ کی سرگودھا ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی خاندان سے قریبی رشتہ داری ہے۔

اس صوبائی سیکرٹری نے اپنے سرکاری دوستوں کو مختلف منصوبوں کی تفصیلات سے متاثر کرکے سرمایہ کاری کے لئے رقوم حاصل کیں اور انہیں منافع کا لالچ دیا جو سرکاری افسران اس افسر کی ہوشیاری سے زیر عتاب آئے ان میں پنجاب کے علاوہ کے پی کے سے تعلق رکھنے والے بھی کئی بیوروکریٹ شامل ہیں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض افسران نے اپنی رقوم کے معاملات سے اعلیٰ سطح پر بھی بتایا ہے جبکہ اکثر کو ابھی تک محرومی کے سوا کچھ نہیں ملا اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ فنکار بیوروکریٹ آج کل ’’ایونٹ مینجمنٹ‘‘ کے کاروبار میں اپنے کارنامے دکھا رہے ہیں؟