مکہ مکرمہ: ماضی و حال کے آئینے میں (قسط نمبر 5)

September 25, 2022

آلِ اسماعیل علیہ السلام کا عروج

حضرت اسماعیل علیہ السلام کے وصال کے بعد اُن کے بڑے صاحب زادے نابت بن اسماعیلؑ مکّہ مکرّمہ کے امیر اور بیت اللہ شریف کے متولّی مقرر ہوئے۔ وہ نہایت نیک سیرت انسان تھے۔ اُس وقت تک آلِ اسماعیلؑ کی حکومت مکّہ مکرّمہ سے باہر جزیرۃ العرب سمیت آس پاس کے علاقوں تک پھیل چکی تھی۔ جنوب میں یہ یمن تک جا پہنچے تھے، جہاں بنو قطور کی حکومت تھی۔ مغرب میں اُن کی حکومت کی سرحدیں مصر تک تھیں۔ جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نانی یعنی حضرت ہاجرہ ؑ کا میکہ تھا اور اُس وقت بھی اُن کا قبیلہ مصر کا حکم ران تھا۔ شمال میں یہ لوگ مُلک شام تک جا پہنچے تھے، جہاں آلِ اسماعیلؑ کے چچا بنو اسحاق ؑ کی حکومت تھی۔ اس طرح پورے جزیرۃ العرب کے علاوہ بابل، مصر، شام، یمن اور فلسطین سمیت تمام علاقوں پر آلِ ابراہیم ؑکی حکومت تھی۔ بحرِہند اور بحیرئہ احمر جیسی مصروف ترین بندرگاہیں اُن کے تصرف میں تھیں، یہاں تک کہ پوری دنیا کی تجارت اُن کے رحم و کرم کی محتاج تھی۔ (تاریخ مکّہ مکرّمہ از محمد عبدالمعبود، صفحہ169)۔

سیّدنا ابراہیم علیہ السلام بابل کے شہر ’’ار‘‘ کے رہنے والے تھے، جب کہ آلِ اسماعیل علیہ السلام کی نانی سیّدہ ہاجرہ ؑ مصری قبطی اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُس زمانے میں بابل اور مصر طاقت وَر اور متمدن ریاستیں تھیں۔ اُن کے قافلے جب ایک مُلک سے دوسرے مُلک سفر کرتے تو درمیان میں اُن کا قیام مکّہ مکرّمہ میں ہوتا، جس کے باعث بہت جلد مکّہ مکرّمہ عالمی شہرت اختیار کرگیا اور اس کے معاشی حالات روزبروز خُوب سے خُوب تر ہوتے گئے۔ سیّدنا اسماعیل علیہ السلام کے دوسرے بیٹے، قیدار بن اسماعیلؑ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح نہایت سمجھ دار، معاملہ فہم اور شریف النفس تھے۔ قیدار کی اولاد مکّہ مکرّمہ میں آباد ہوئی۔ یہ لوگ اپنے چچا اور باپ کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے خانۂ کعبہ کی عظمت کی حفاظت اور اس مقدّس گھر کے حقوق کی پاسبانی میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمّد عبدالمعبود، صفحہ169)۔

نابت بن اسماعیلؑ کے انتقال کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پوتے مضاض بن عمرو جرہمی نے خانۂ کعبہ کی تولّیت کی ذمّے داریاں سنبھالیں۔ (مکّہ مکرّمہ از محمود محمد حمو، صفحہ9)علامہ شبلی نعمانی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ نابت بن اسماعیلؑ کے انتقال کے بعد اُن کے نانا مضاض نے یہ منصب حاصل کیا اور کعبہ کی تولّیت خاندانِ اسماعیل علیہ السلام سے نکل کر جرہم کے خاندان میں آگئی۔ (سیرت النبیؐ،جِلد اوّل صفحہ، 108) تقریباً تین سو سال تک خانہ ٔ کعبہ کی خدمت حجّاج و زائرین کی راحت رسانی اور مکّہ مکرّمہ کی حکومت کی تمام تر ذمّے داریاں قبیلہ بنو جرہم کے کاندھوں پر رہیں اور یہ لوگ تمام امور خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔

بنو جرہم کی بداعمالیاں

مکّہ مکرّمہ کی حکومت اور بیت اللہ شریف کی خدمت کی بدولت بنو جرہم کا قبیلہ عرب کے قبائل میں نہایت خوش حال اور طاقت وَر شمار ہوتا تھا۔ دولت کی فراوانی نے قبیلے کی نوجوان نسل کو آرام طلب، عیاش، متکبّر اور مجرمانہ ذہنیت کا مالک بنادیا تھا۔ زائرین اور مسافروں کی عزت و آبرو اور مال لُوٹنا اُن کا معمول بن چکا تھا، یعنی حدودِ خدا وندی کی پامالی اور بیت اللہ شریف کی بے حرمتی کی کوئی پروا نہ تھی۔ شیطان اُن پر مکمل طور پر حاوی ہوچکا تھا۔ قبیلے کے معززین نے صُورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن وہ کام یاب نہ ہوسکے۔ مکّے کا جہاںدیدہ حکم ران اور قومِ جرہم کا سردار مضاض بن عمرو بن حارث اس صُورتِ حال سے بالکل مایوس ہوگیا، تو اُس نے خانۂ کعبہ پر چڑھایا جانے والا خزانہ، سونے کے دو ہرنوں سمیت تمام مقدّس اور قیمتی اشیاء زم زم کے کنویں میں دفن کردیں۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمد عبدالمعبود، صفحہ172)۔

مکّہ پر بنو خزاعہ کی حکومت

بنو جرہم کا سردار، مضاض بن عمرو اپنی قوم کے ہاتھوں حرمِ مقدّس کی بے حرمتی، زائرین سے لُوٹ مار، عزت و آبرو کی تذلیل دیکھ کر اللہ کے خوف سے سخت پریشان تھا۔ اُسے اس بات کا ڈر تھا کہ پچھلی قوموں کی طرح نہ جانے کب اللہ تعالیٰ اپنا عذاب نازل فرمادے۔ ابھی وہ اسی سوچ بچار میں مصروف تھا کہ اُسے اطلاع ملی کہ یمنی قبیلے بنو خزاعہ کی ایک بڑی فوج نہایت برق رفتاری سے مکّہ کی جانب آرہی ہے اور پھر تین دن کی سخت ترین جنگ کے بعد قبیلہ جرہم کا غرور و تکبّر خاک میں مل گیا۔ ربیعہ بن الحارث کی قیادت میں بنو خزاعہ کے جنگجوئوں نے بنو جرہم کو باہر نکال کر مکّے کی حکمرانی، حرم شریف کی نگہداشت اور خدمت کی تمام تر ذمّے داری سنبھال لی۔

قومِ جرہم، چوں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرالی تھے، لہٰذا اُن کی سخت ترین بداعمالیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھا اور اُن سے صرف مکّہ کی حکمرانی اور اپنے گھر کی خدمت کا اعزاز واپس لے کر مکّہ بدر کردیا اور بنو خزاعہ کو ان پر مسلّط کردیا۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمود محمد حمو، صفحہ9) ربیعہ کی وفات کے بعد بنو خزاعہ کے ایک اور ’’سردار عمرو بن لحی‘‘ نے زمامِ قیادت سنبھالی۔

یہ وہ بدبخت انسان تھا، جس نے عرب میں پہلی مرتبہ بُت پرستی متعارف کروائی۔ اُس نے مُلک شام میںبُت پرست قوم عمالیق سے ’’ہبل‘‘ نامی ایک بُت خریدا اور اُسے کعبہ شریف کے اندر نمایاں جگہ نصب کرکے اُس کی پرستش شروع کردی۔ یوں جلد ہی بُت پرستی کا یہ سلسلہ مکّہ سمیت پورے عرب میں پھیل گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے ارشاد فرمایا کہ میں نے اُسے (عمرو بن لحی) جہنّم میں دیکھا کہ اُس کی انتڑیاں آگ میں گھسیٹی جارہی تھیں۔ (صحیح بخاری 499/1)

شاہ تبّع اسعد حمیری کی مکّہ آمد

ظہورِ اسلام سے تقریباً سات سو سال قبل یمن میں اسعد حمیری کی بادشاہت تھی۔ یمنی زبان میں بادشاہ کو ’’تبّع‘‘ کہا جاتا تھا، چناںچہ وہ شاہ تبّع کے نام سے مشہور ہوا۔ بادشاہ کو اطلاع ملی کہ مکّہ مکرّمہ میں ایک ایسی عبادت گاہ ہے، جہاں ہیرے جواہرات، یاقوت، سونا، چاندی اور دیگر قیمتی اشیاء بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اہلِ مکّہ دل و جان سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بادشاہ نے یثرب سے آئے ہوئے دو یہودی علماء سے اس کی تصدیق چاہی۔ یہودی علماء نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور نہایت عزت و احترام کی جگہ ہے۔ وہاں لُوٹ مار گناہِ عظیم ہے۔

شاہ تبّع نے اُن علماء سے دریافت کیا کہ اگر وہ اتنی مقدّس جگہ ہے، تو تم لوگ اس گھر کی تعظیم و توقیر کیوں نہیں کرتے؟ علماء نے جواب دیا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقدس گھر کو ہمارے جدِامجد سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھا، مگر اس وقت اس پر بُت پرستوں کا قبضہ ہے، اس کے اندر باہر بے شمار بُت رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے نزدیک بُتوں کی پوجا کفر ہے۔‘‘ شاہ کو علماء کا یہ جواب بہت پسند آیا۔

جن لوگوں نے اسے بیت اللہ شریف کی بے حرمتی کا مشورہ دیا تھا، بادشاہ نے ان کے ہاتھ، پائوں کٹوادیئے۔ پھر اُسے کعبہ شریف کی زیارت کا شوق پیدا ہوا، چناںچہ وہ عشق و محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ مکّہ معظمہ میں داخل ہوا۔ اُس نے بیت اللہ کا طواف کیا، سر منڈوا کر قربانی دی اور وہاں چند دنوں کے قیام کے دوران دودھ و شہد کے شربت کی سبیلوں کے علاوہ پُرتکلف کھانوں سے دعوتوں کا اہتمام کیا۔

خانۂ کعبہ کا پہلا غلاف

شاہ تبّع وہ پہلا شخص تھا، جس نے خانۂ کعبہ پر یمنی کپڑے کا خُوب صُورت غلاف چڑھایا۔ پھر وہ واپس یمن لوٹ گیا۔ دونوں یہودی علماء اُس کے ساتھ تھے۔ شاہ تبّع اُن کا گرویدہ ہوچکا تھا، چناںچہ اُس نے اور اُس کی پوری قوم نے بُت پرستی سے تائب ہوکر یہودی مذہب اختیار کرلیا۔ (تاریخ مکّہ مکرّمہ، محمد عبدالمعبود، صفحہ176)۔ بعض مؤرخین کے مطابق شاہ تبّع مکّے پر حملے کی نیّت سے جوں ہی مکّہ معظمہ کی سرحد تک پہنچا، اُسے سردرد کی شدید بیماری لاحق ہوگئی۔ طبیبوں اور حکیموں نے اس مرض کو لاعلاج قرار دے دیا۔ بادشاہ کے کان، ناک اور منہ سے دن رات بدبودار پانی بہتا رہتا، یہاں تک کہ وہ چند دنوں کا مہمان رہ گیا۔

ایک صبح وہ شدید مایوسی کے عالم میں اپنے بستر پر دراز موت کا منتظر تھا کہ اُسے ایک یہودی عالم کے آنے کی اطلاع دی گئی۔ بادشاہ نے اُسے آنے کی اجازت دےدی۔ عالم نے آتے ہی بادشاہ سے سوال کیا کہ ’’تم اتنی بڑی فوج کے ساتھ مکّہ کیوں آئے ہو؟‘‘ بادشاہ نے نہایت مایوسی کے عالم میں کہا کہ ’’میں کعبہ ڈھانے آیا تھا، لیکن اب میری زندگی کا چراغ گُل ہونے کو ہے۔‘‘ عالم نے کہا، ’’اے بادشاہ! تمہاری اس حالت کی وجہ تمہاری بُری نیّت ہے، اب بھی وقت ہے، کعبے کے مالک سے معافی مانگ لو اور مکّہ معظمہ کے لیے بُرے خیالات دل سے نکال دو، شاید اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمادے۔‘‘ بادشاہ نے اُسی وقت گڑگڑاکر معافی مانگی اور آتش پرستی سے تائب ہوکر دینِ ابراہیمیؑ اختیار کرلیا۔ چند ہی دنوں میں اُس کی حالت میں بہتری آنے لگی۔ اُس نے فوراً ہرکارے دوڑائے اور یمن سے خُوب صُورت اور قیمتی غلاف بنوا کر خانۂ کعبہ پر چڑھایا۔ یہ خانۂ کعبہ کا پہلا غلاف تھا۔

قریش کا شان دار دَورِ حکومت قصی بن کلاب

بنو خزاعہ نے مکّہ معظمہ پر تقریباً پانچ سو سال تک حکومت کی۔ اُن کا آخری حکم راں حلیل بن عبشیہ بن سلول الخزاعی تھا۔ حلیل نے اپنی خُوب رُو صاحب زادی کے لیے مکّے میں مقیم ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا، جو نہایت بہادر، طاقت ور، پُرجوش، سخت مزاج نوجوان تھا۔ قصی بن کلاب کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے یہ نوجوان آقائے دوجہاں نبی آخرالزماں، حضور رسالتِ مآب حضرت محمّد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے جدّاعلیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔

یہ خاندانِ قریش میں نہایت پُرعزم، باصلاحیت اور ہردل عزیز شخصیت کے حامل تھے۔ اُن کا اصل نام ’’زید بن کلاب‘‘ تھا، لیکن اُن کے والد کلاب بن مرّہ کے انتقال کے بعد والدہ فاطمہ بنتِ سعد نے ربیعہ بن حرام سے دوسرا نکاح کرلیا، جو شام کے رہنے والے تھے۔ نکاح کے بعد شِیرخوار زید کو اُن کی والدہ اپنے ساتھ مُلکِ شام لے گئیں۔ چوںکہ زید اس دوران اپنے وطن مکّہ اور اپنی قوم سے دُور ہوئے تھے، لہٰذا انہیں ’’قصی‘‘ کہا گیا، یعنی وہ شخص جو اپنے وطن سے دُور رہے۔ (طبقات بن سعد77/1)

قصی کے کارنامے

قصی بن کلاب خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے بہت کم وقت میں مکّہ معظمہ کی معاشی، سیاسی، معاشرتی اور تمدّنی ترقی کے لیے وہ عظیم الشّان کارنامے انجام دیئے، جس نے قومِ قریش کو ترقی و کام رانی کی راہ پر گام زن کرکے جزائرعرب میں ایک منفرد و اعلیٰ مقام دلوایا۔ مکّے میں امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کی وجہ سے تجارتی قافلے بہت کم آتے تھے، انہوں نے امن و امان پر خصوصی توجّہ دی۔ قافلوں کی حفاظت کے لیے راستوں پر حفاظتی چیک پوسٹیں قائم کیں، جن کی وجہ سے عرب قبائل بکثرت حج وزیارت اور تجارت کے لیے مکّہ مکرّمہ آنے لگے۔

کعبے سے متصل ایک خُوب صُورت محل تعمیر کراویا، جسے ’’دارالندوہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ جہاں قریش کے تمام قبائل جمع ہوکر باہمی مشورے اور فیصلے کیا کرتے تھے۔ حج کے دنوں میں مزدلفہ کے میدان میں چراغاں کیا جاتا، تاکہ عرفات آنے والے حاجی اندھیرے میں راستہ نہ بھول جائیں۔ سقایہ اور رفادۃ کا قیام بھی قصی کا کارنامہ ہے۔ قصی نے زائرین اور حاجیوں کو اللہ کا مہمان قرار دے کر اہلِ قریش کے دلوں میں اُن کے تقدّس اور احترام کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ وہ حجّاج کی خدمت کو بہت بڑا اعزاز و ثواب سمجھنے لگے۔

قصی نے ایک بہت بڑا کام یہ کیا کہ اپنی قوم کے تمام لوگوں کو مکّہ مکرّمہ کے چاروں جانب آباد کیا۔ اس نے کعبہ شریف کے چاروں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکانات تعمیر کرواکے اپنی قوم کو دیئے، اُن کے مَردوں کو مختلف حکومتی امور پر مامور کیا۔ اسی وجہ سے انہیں قریش کہا جانے لگا، کیوںکہ قریش کے معنی جمع کرنے کے ہیں۔ (سیرت النبیؐ، علامہ شبلی نعمانی ؒ 113/1)۔

ہاشم بن عبدِمناف

480 عیسوی میں قصی کا انتقال ہوا، تو اُن کے بڑے بیٹے عبدالدار، والد کی جگہ مکّہ مکرّمہ کے حاکم مقرر ہوئے، جب کہ حرم شریف کے تمام مناصب کی ذمّے داری دوسرے بیٹے عبدِمناف کے پاس آگئی۔ عبدِمناف کا قبیلہ پورے عرب میں سب سے پُرامن اور سمجھ دار قبیلہ تھا۔ عبدِمناف کے چھے بیٹے تھے، جن میں ہاشم سب سے زیادہ باصلاحیت اور بااخلاق تھے۔ اُن کا اصل نام عمرو تھا۔ یہی کعبہ شریف کے متولّی تھے۔ ہاشم نے اپنے دادا قصی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مکّہ مکرّمہ کو ایک پُرامن اور محفوظ شہر بنادیا تھا۔

ہاشم نے تجارت کی نئی نئی منڈیاں تلاش کیں۔ ایک مرتبہ مکّہ میں شدید قحط پڑا، ہاشم اُس وقت شہر سے باہر تھے۔ انہیں جب پتا چلا تو انہوں نے ہزاروں مَن روٹیاں پکوائیں، انہیں مکّہ لائے، یہاں اونٹ ذبح کرکے اُن کا سالن بنایا، جس کے شوربے میں روٹیاں چُورا کرکے اہلِ مکّہ کو کھلاتے رہے۔ چوں کہ عربی میں چُورا کرنے کو ہشیم کہتے ہیں، چناںچہ لوگ انہیں ہاشم کے نام سے یاد کرنے لگے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد86/1)۔ (جاری ہے)