عالمی برادری سے وزیر اعظم کا خطاب

September 25, 2022

وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں پاکستان کو اس کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کے باعث درپیش سنگین چیلنجوں سے نہایت مؤثر انداز میں اس امرکے حوالے کے ساتھ آگاہ کیا کہ ہم پر ٹوٹنے والی یہ آفت ترقی یافتہ ملکوں کی ماحول دشمن توانائی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے ایک تہائی رقبے کے پانی میں غرق ، سوا تین کروڑ سے زائد شہریوں کے اپنے گھر بار سے محروم ہوجانے اور اس کے بعد انسانی جانوں اور صحت کیلئے رونما ہونے والے خطرات کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے حوالے سے واضح کیا کہ نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد بھی نہ ہونے کے باوجود ہم دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہیں جو ان گیسوں سے جنم لینے والی فضائی آلودگی کے تباہ کن اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہے۔ ہمارے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں ، حدت کی لہریں 53 ڈگری سے بڑھ گئی ہیں اور اب ہم غیرمعمولی جان لیوا مون سون کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے سیلاب زدگان کے حالات کا جائزہ لینے کی خاطر بنفس نفیس پاکستان آنے ، متاثرین کے کیمپوں میں وقت گزارنے اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرانے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دلی شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ عالمی برادری انصاف کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کے نقصانات کی تلافی کی خاطر پیش قدمی کرے گی۔ معاونت کرنے والے تمام ملکوں کا پوری پاکستانی قوم کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ محتاط طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے اگرچہ نقصان کا درست تخمینہ لگاناابھی ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری اصل پریشانی یہ ہے کہ جب کیمرے چلے جائیں گے اور اسٹوری یوکرین تنازع کی طرح رہ جائے گی تب کیا ہوگا۔ کیا ہم اکیلے رہ جائیں گے؟ ایسے بحران کے لیے جو ہم نے پیدا نہیں کیا۔ ریسکیو اور ریلیف کے بعد کہاں سے اور کیسے بحالی اور تعمیرنو کے مرحلے کا آغاز کریں گے؟‘‘ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہم اپنے تمام تر دستیاب وسائل کو بروئے کار لا کر قومی ریلیف کی کوششیں کررہے ہیں، ہم نے ترقیاتی اخراجات سمیت بجٹ کی ترجیحات پر نظر ثانی کی ہے تاکہ ریسکیو اور بنیادی ضرورت کو اولیت دی جاسکے ، 70ارب روپے اس مقصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں جن سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ بلاشبہ وزیر اعظم نے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا مقدمہ بہت متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے اور توقع ہے کہ ڈونرز کانفرنس وغیرہ جیسے اقدامات میں اس پر حوصلہ افزاء ردعمل سامنے آئے گا اور پاکستان عالمی برادری کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلی سمیت تمام درپیش چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوجائے گا۔ وزیر اعظم نے اسلامو فوبیا، افغانستان، فلسطین،شام، یمن اور دیگر بین الاقوامی معاملات پر پاکستان کا موقف واضح کرنے کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت کا خاص طور پر اظہار کیا۔ پون صدی سے معلق یہ تنازع یقینا عالمی برادری کی ترجیحی توجہ کا حقدار ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے یہ بات اس بناء پر اور ضروری ہوگئی ہے کہ دونوں ملک موسمیاتی تبدیلی کے جس چیلنج سے دوچار ہیں، کشمیر کا معاملہ سلجھ جائے تو دونوں اپنے دفاعی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرکے اپنے وسائل اس نئے چیلنج سے نمٹنے اور اپنے لوگوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے مختص کرسکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے عالمی برادری اس معاملے میں بھی اپنا کردار فوری اور مؤثر طور پر ادا کرے۔