آڈیو لیکس منظر عام پر لانے کی ’ٹائمنگ‘ کئی حوالوں سے معنی خیز

September 26, 2022

اسلام آباد(فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) وزیراعظم کی مبینہ طور پر کسی اعلیٰ سرکاری افسر سے گفتگو کے بعد حکومت میں شامل حکمراں اتحاد کے ر ہنمائوں کی گفتگو پر مشتمل مزید ’’آڈیو کلپس‘‘ منظرعام پر آگئی ہیں اور یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسی مزید ’’وڈیو کلپس‘‘ موجود اور برائے فروخت ہیں ۔


خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ سوشل میڈیاپر لیک ہونے والے ان آڈیو کلپس میں ہونے والی گفتگو کا ڈیٹا وزیراعظم کے دفتر سے ہیک کیا گیا ہے جو نیشنل ٹی وی چینلز پر آنے سے ملکی سیاست میں جہاں ایک کھلبلی مچ گئی ہے وزیراعظم ہائوس کی گفتگوہی کیوں ریکارڈ کی گئی۔

سابقہ مکینوں کو کیوں بخش دیا گیا دوسری طرف حکومت کی جانب سے اس کی وضاحتوں، تردیدوں اور جواز پیش کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے تاہم اس حوالے سے حکومتی ترجمان اور دیگر زعماء خاصے پراعتماد ہیں کہ اس میں حکومت کی پریشانی یا تشویش کی کوئی بات نہیں ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین نے ان متنازعہ آڈیو کلپس سے محض پروپیگنڈے کی بنیاد پر بھرپور سیاسی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے رفقاء کو ہدایت کی ہے کہ اس صورتحال پر جارحانہ انداز اختیار کیا جائے جس کا آغاز خود انہوں نے کرک کے جلسہ عام میں اپنی تقریر کے دوران کیا۔

جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اپنے حامیوں کو اس حوالے سے ’’ہدایات ‘‘ جاری کر دی گئی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے ٹائمنگ سمیت کئی باتیں اہم، لمحہ فکریہ اور جواب طلب ہیں۔ یہ آڈیوکلپس ایک ایسے موقعہ پر سامنے لائی گئی ہیں جب وزیراعظم شنگھائی تعاون تنظیم، ملکہ برطانیہ کی تعزیتی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرکے وطن واپس آنے والے ہیں۔

ان تین مواقعوں پر جہاں انہوں نے بین الاقوامی فورمز اور دیگر مصروفیات میں شرکت کرکے دنیا کے عالمی راہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، ظاہر ہے اس سے ان کی سیاسی قدوقامت اور بین الاقوامی سطح پر حکومتی وقار میں اضافے اور امور مملکت کی اہلیت کا بھی لوگوں کو اندازہ ہوا ہے، یہ پہلو بھی اہم ہے کہ وہ لندن میں نواز شریف سے داخلی سطح پر کئے جانے والے اہم فیصلوں پر مشاورت اور ر ہنمائی حاصل مکمل کرکے وطن واپس آئیں گے جن پر وطن پہنچنے کے بعد انہوں نے یقیناً عملدرآمد بھی کرنا ہوگا ۔

ایک آڈیو کلپس میں خاص طور پر کردار کشی کے حوالے سے اسحاق ڈار کا ذکر بھی موجود ہے جس سے کئی سوال اٹھتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف وطن واپسی پر اپنی پریس کانفرنس، انٹرویوز اور دیگر مواقعوں پر اپنے غیر ملکی دورے میں سیلاب متاثرین کیلئے عالمی ہمدردی اور امدادی پروگرامز کے حوالے سے دورے کی کامیابیوں اور عالمی راہنمائوں سے ملاقاتوں کے احوال کے بارے میں بات کرتے لیکن اب انہیں شاید مختلف سوالوں کا سامنا کرنا پڑے۔

یہ خدشات بظاہر درست دکھائی دیتے ہیں کہ لیک ہونے والی گفتگو کا ڈیٹا وزیراعظم کے دفتر سے ہی ہیک ہوا ہے تو پھر اس میں صرف 6 ماہ کی موجودہ حکومت کے وزیراعظم اور وزراء کی ہی گفتگو کیوں ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس میں سابقہ حکومت کے وزیراعظم اور وزیروں اور ملاقاتیوں کی گفتگو کیوں نہیں ہے اس لئے یہ خدشہ بھی درست ہوگا کہ ریکارڈنگ کا انتظام و اہتمام صرف موجودہ حکومت کیلئے ہی بطورخاص کیا گیا تھا۔

پھر پاکستان تحریک انصاف کے راہنمائوں اور چیئرمین کی جانب سے گزشتہ کافی دنوں سے حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مسلسل اور شدت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کے غیر مستحکم ہونے کے دعوے اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کیلئے بھی مختلف حربے اختیار کئے جارہے ہیں اس لئے یہ ’’آڈیو کلپس‘‘کئی حوالوں سے معنی خیز ہیں۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف میں داخلی سطح پر تنظیمی بحران کے نتیجے میں دھیمے مزاج رکھنے والے پارٹی کے بانی رکن، ماہر قانون حامد خان اور اپنے جارحانہ طرز عمل اور متنازعہ بیانات کے حوالے سے خبروں میں رہنے والے سابق وزیر فواد چوہدری کے درمیان تلخی اور مخاصمت کی جو صورتحال محاذ آرائی کی فضاء میں تبدیل ہو رہی تھی اس میں عمران خان نے حامد خان کو فوقیت دیتے ہوئے انہیں اس دس رکنی ایڈوائزری کونسل کا چیئرمین مقرر کر دیا ہے جو حال ہی میں قائم کی گئی ہے۔