’پہلے نور مقدم، اب سارہ انعام‘، پاکستانی فنکار چلاّ اٹھے

September 27, 2022

کولاج، فائل فوٹو

پاکستانی عوام ابھی درندہ صفت مجرم ظاہر جعفر کے ہاتھوں نور مقدم کا بہیمانہ قتل نہیں بھولی تھی کہ ایک اور بیٹی اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں تشدد کے بعد قتل کر دی گئی۔

ایسی افسوسناک صورتحال میں جہاں ہر عام و خاص میں غصہ اور تشویش پائی جا رہی ہے وہیں پاکستانی فنکار بھی سسٹم پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

سینئر صحافی ایاز امیر کے بیٹے، شاہنواز امیر کے ہاتھوں اپنی بیوی سارہ انعام کے قتل پر شوبز انڈسٹری بھی تڑپ اٹھی ہے۔

اداکارہ بشریٰ انصاری کا اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہنا ہے کہ اگر اُس جانور ظاہر جعفر کو عبرت ناک سزا مل جاتی تو شاید!!!

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ وہ ایک ایئر کنڈیشنڈ دماغی اسپتال میں دماغ کا علاج کروارہا ہے اور زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہے، پھر بطور امریکی شہری اُسے مزید علاج کے لیے امریکا بھیجا جائے گا اور پھر لوگ اسے بھول جائیں گے، کاش ان مجرموں کے والدین اِنہیں بچانے کے بجائے خود ان کو موت کی سزا دینے کی درخواست کریں۔

بشریٰ انصاری نے مزید لکھا کہ یہ پڑھی لکھی آزاد لڑکیاں ایک نشہ آور شخص کے غیر متوقع رویے کا پتہ کیوں نہیں لگا سکتیں اور اِنہیں کیوں نہیں چھوڑ سکتیں۔

دوسری جانب اداکارہ ماورہ حسین نے لکھا ہے کہ نور مقدم کا مجرم تاحال زندہ ہے، موٹر وے زیادتی کیس تاحال مکمل نہیں ہوا ہے، وکیل خدیجہ پر چاقو سے وار کرنے والا آزاد گھوم رہا ہے۔

ماورا نے کئی مجرموں دانش شیخ، عثمان مرزا اور ظاہر جعفر کا نام لیتے ہوئے مزید لکھا کہ اور بہت سارے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔

اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا ہے کہ غصے کے ہاتھوں قتل ہونے والی کسی بھی عورت کے لیے ہمیں کب تک انصاف ملے گا؟ ایک اور ہیش ٹیگ کا اضافہ، انصاف کا ایک اور طویل انتظار، انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔

اسی طرح اداکار و کانٹینٹ کریئٹر مومن ثاقب کا اپنے ٹوئٹ میں لکھنا ہے کہ نور سے لے کر سارہ تک اور ملک بھر میں گھناؤنے جرائم کے تمام غیر رپورٹ شدہ متاثرین بنیادی حقائق کی تلخ عکاسی کرتے ہیں، جو مجرموں کے خلاف سخت قانون سازی کی جَلد ضرورت کو ثابت کرتی ہے!

اداکارہ مدیحہ رضوی نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے اپنی انسٹاگرا پوسٹ میں لکھا ہے کہ کل نور تھی، آج سارہ ہے، کل کوئی اور ہو گی، ایک اور ہیش ٹیگ، ایک اور سفاکانہ قتل، کب تک ؟؟؟؟؟؟

اداکارہ سیدہ طوبیٰ انور نے بھی جسٹس فار سارہ کا استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔