آڈیو لیکس

September 30, 2022

بدھ کے روز ایک اور مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خبروں اور گفتگو کا موضوع بن گیا۔ جن قوتوں یا عناصر کی جانب سے یہ سلسلہ شروع کیا گیا، انہیں اس سے سروکار نہیں کہ کسی کے الفاظ ’’خطا کاری‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔ ان کا مقصد ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کرنا تھا۔ اس سے کہیں بڑی اور مذموم سازش یہ واضح ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کے دفتر کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر نمایاں کیا جائے جہاں کی جانے والی بہت سی گفتگو حساس نوعیت کی ہوتی ہے اور اندرون ملک پالیسی کے بعض امور کے علاوہ بیرون ملک رابطوں کے حوالے سے بھی اس کی اہمیت مسلّم ہے۔ چند روز قبل سامنے آنے والی مبینہ آڈیو لیک میں موجودہ وزیراعظم کو نشانے پر لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ نئی آنے والی مبینہ لیک سابق وزیراعظم کے امریکی سازش کے بیانیے کے حوالے سے ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک کے دیگر سیاستدانوں کےمبینہ آڈیوز اور وڈیوز بھی خلاف توقع نہیں۔ اس لئے وڈیوز کا مبینہ لیکیج سیاسی حلقوں کا ایک دوسرے کو الزامات کا ہدف بنانے کا موقع نہیں، اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا ذریعہ بننا چاہئے کہ ہم اپنے ملک کے سب سے بڑے انتظامی دفتر کی حفاظت پوری طرح کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔ پاکستانی قوم کا وقار متاثر ہوا ہے۔ ہمارے سیاستدان چاہے حکومتی کیمپ سے تعلق رکھتے ہوں یا اپوزیشن کہلانے والے حلقوں سے متعلق ہوں، انہیں اپنے بیانات اور طرز عمل میں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ پاکستان دشمن عناصر یہاں افراتفری، انتشار، عدم تحفظ اور ہر طرح کی بے اعتباری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کے حربے ناکام بناتے ہوئے ہر ایسے سوراخ کو بند کرنا ہے جو پاکستانی قوم کو ڈسنے کے لئے دشمن استعمال کر رہے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ایسے وقت جب ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کے اثرات بعض اعتبارات سے انسانی المیوں کے روپ دھارتے محسوس ہورہے ہیں ، ایسا کیوں ہورہا ہے کہ ایک طرف پاکستان دشمن ملک کی سرپرستی میں بیشمار جعلی ویب سائٹس اسلام آباد کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے میں مصروف ہیں دوسری جانب درانداز اور دہشت گرد اندرون ملک خونریزوارداتوں کے ذریعے ملکی سرحدوں کی حفاظت اور سیلاب زدگان کی امداد میں دن رات ایک کر دینے والی مسلح افواج کی کاوشوں میں رکاوٹیں ڈالتے محسوس ہورہے ہیں۔ 28ستمبر کو سابق وزیراعظم عمران خان کی ایک گفتگو کے حوالے سے جو نیا مواد سامنے آیا اس نے ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن کے حلقوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ سفارتی امور کے ماہرین ، وکلاء ، تجزیہ کاروں کی آرا سامنے آرہی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں الزامات ، جوابی الزامات اوروضاحتوں کی صورت میں قومی وقت اور توانائی کا زیاں سیلاب کے باعث بے گھر، بے در اور پریشان حال خاندانوں کے احساس عدم تحفظ کے گراف پر کس انداز میں اثرانداز ہوگا۔ یہ ایسی بات ہے جس پر ہمارے تمام سیاسی رہنمائوں اور قومی زندگی کے تمام حلقوں کو توجہ دینی چاہئے۔ یہ وقت ناامیدی پھیلانے کا نہیں، لوگوں میں امیدیں جگانے اور حوصلے پیدا کرنے کا ہے تاکہ سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں کو پائیدار خطوط پر تعمیر کرنے کا کام جلد ممکن ہو۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ مختصر مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبے بنائیں۔ ایک میثاق معیشت پر متفق ہوں اور آگے بڑھنے کی سعی کریں۔ سیاست کرنے کے مواقع آتے رہیں گے۔ جمہوری نظام میں حکومتوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری چلتا رہتا ہے۔ مگر موجودہ وقت کی نزاکت متقاضی ہے کہ اسے غیر ضروری مباحث میں ضائع کرنے سے اجتناب برتا جائے۔