نئے وزیر خزانہ سے توقعات!

September 30, 2022

ملک کو معاشی لحاظ سے اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سرفہرست اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر کا گر کر آٹھ سے 9ارب ڈالر کی سطح پر آ جانا،کمر توڑ مہنگائی اور برآمدات کے مقابلے میں غیر معمولی درآمدی حجم سرفہرست ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے پانچ سال لندن قیام کے بعد قائدین کے فیصلے کی روشنی میں منگل کو وطن واپس پہنچ کر سینیٹر اور اگلے روز وزیر خزانہ کے عہدے کا چوتھی مرتبہ حلف اٹھایا۔ انہوں نے خود اپنے لئے سب سے پہلا اور فوری ہدف ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم کرنےکو چیلنج کے طور پرقبول کیاہے۔ اگر اس میں ٹھوس کامیابی ملتی ہے تو یہ یقیناً معیشت کی بحالی کی طرف پہلا قدم ثابت ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار نے متعلقہ حلقوں کو لندن سے روانگی سے قبل اس بات کی تنبیہ کر دی تھی کہ وہ ازخود ڈالر کا مصنوعی اضافہ نیچے لے آئیں جو 22ستمبر کو 239.34روپے کی بلند ترین سطح پرتھا،جس کے بعد سے اب تک اس کی قدر میں 2.42 فیصدکی کمی آ چکی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کےبعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ڈالر جو ابھی نو دس روپے نیچے آیا ہے اس کا مطلب ہے کہ ملک پر 1350 ارب روپے کے قرضے کم ہوئے ہیں تاہم معیشت کی بہتری کیلئے وقت درکار ہیں جس سے مہنگائی اور شرح سود میں کمی آئے گی۔ قوم کو اس وقت تاریخ کی جس بلند ترین مہنگائی کا سامنا ہے اس کا اعتراف موجودہ اور سابق وزیر اعظم نے بھی کیا اور وزیر خزانہ بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ اس کے پیچھے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ کارفرما ہے اور ان میں شامل بھاری بھر کم ٹیکسوں سے غریب اور متوسط طبقہ حواس باختہ ہے لہذا وزیر خزانہ سے ان کی یہ توقعات بے جا نہیں کہ ان کی قلیل اجرتیں اور تنخواہیں پیٹرول اور بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کی نذر ہونے سے بچائی جائیں ۔