ٹرانس جینڈر بل

October 04, 2022

بولٹن کی ڈائری۔۔۔۔۔ابرار حسین
برطانیہ میں بولٹن نارتھ ویسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر مذہبی تہوار پورے مذہبی جوش جذبے کے ساتھ منائے جاتے ہیں، اب جب سے یہ اطلاعات آئی ہیں کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پاس کیا گیا ہے، نارتھ ویسٹ کے مذہبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، ایک نظر میں جائزہ لیتے ہیں کہ یہ بل ہے کیا، جس پر مذہبی حلقوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، بظاہر خواجہ سراؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ان کے استحصال و ہراسانی کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی غرض سے پاکستانی پارلیمنٹ نے 4 سال پہلے ایک قانون (ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ) بنایا تھا اب حال ہی میں اس متعلق ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے، اس عرصے میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی سوشل میڈیا نیٹ ورک پر مخالفت اور حمایت دونوں طرح کے دلائل دیکھنے میں آ رہے ہیں، نئی بحث کا آغاز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ایک اجلاس کے بعد ہوا جس میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ میں گذشتہ سال پیش ہونے والا ترامیم کا بل زیر بحث لایا گیا ،ترمیمی بل کے محرک جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی رائے میں ٹرانس جینڈر افراد کی جنس کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری قرار دیا جانا چاہئے اس سے اس مجوزہ قانون کے غلط استعمال کی روک تھام میں مدد مل سکے گی، ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے بعد سے 30 ہزار سے زیادہ مرد و خواتین نے خود کو مخالف جنس کے طور پر ریکارڈ کروایا جو ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کے کھلم کھلا غلط استعمال کا بین ثبوت ہے، اس قانون کی اہم شقیں درج ذیل ہیں: ایک ٹرانس جینڈر فرد کو اس ایکٹ کی دفعات کے مطابق ، اس کی خود ساختہ صنفی شناخت کے مطابق پہچاننے کا حق ہوگا، کسی فرد کو ذیلی دفعہ کے تحت ٹرانس جینڈر کے طور پر پہچانے جانے والے شخص کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو صنفی شناخت کے مطابق رجسٹرڈ کروانے کا حق حاصل کرے لیکن یہ صرف نادرا تک ہی محدود نہیں ہے، ہر ٹرانس جینڈر فرد ، پاکستان کا شہری ہونے کے ناتے، جس کی18 سال کی عمر ہو چکی ہے اسے نادرا کے ساتھ خود سے متعلق اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بعد ہی اسے یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ رجسٹر کروا سکے ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق قانون چار سال بعد دوبارہ زیر بحث ہے، ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کے مخالفین خواجہ سرا کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کو ضروری قرار دیتے ہیں جب کہ حمایتی اس شرط کو انسانی وقار پر ضرب سمجھتے ہیں، اصل اعتراض مسودہ کے باب 2 کی سیکشن 3 کی سب سیکشن 3 اور 4 پر ہے جس میں 18 سال کی عمر کے بعد خواجہ سراؤں کو نام کی تبدیلی اور اپنی مرضی سے جنس کی تبدیلی لکھوانے کی اجازت دی گئی ہے ، ”ٹرانس جینڈر ایکٹ“ میں خواجہ سراؤں کو جو حقوق تفویض کیے گئے ہیں ان پر تو کسی کو اعتراض نہیں لیکن اصل مسئلہ اس کی وہ شقیں ہیں جو شریعت سے متصادم ہیں جس کے باعث نہ صرف پاکستان کا مذہبی طبقہ بلکہ خود خواجہ سراؤں کی معقول تعداد بھی اس بل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے کیونکہ اس قانون کے چیپٹر نمبر دو کی شق نمبر تین کی ذیلی شق نمبر دو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جس وجہ سے اس بل میں ضروری ترامیم پر زور دیا ھا رہا ہے، دوسری جانب اسلام کے عقائد سے دوری کا یہ عالم ہے کہ نام نہاد لبرل طبقے کے نزدیک اس بل میں کوئی شق خلاف شریعت ہے ہی نہیں، سو بقول ان کے اس میں ترامیم کی کوئی ضرورت نہیں اور جس حالت میں یہ بل پاس ہوا ہے اسی طرح نافذ العمل رہنا چاہئے، یہ نکتہ بھی نہایت اہم ہے کہ کوئی بھی 18سال سے زائد عمر کا مرد یا عورت نادرا آفس جا کر اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر ظاہر کرکے مرد سے عورت یا عورت سے مرد میں جنس تبدیلی کی درخواست دے تونادرا دستاویزات میں اس کی جنس تبدیلی کا پابند ہوگا۔ نادرا اس کی پیدائشی ریکارڈ میں پہلے سے لکھی گئی جنس تبدیل کرنے کا پابند ہوگا، اگر ایک پیدائشی مرد ہے، وہ کسی مرد سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے، وہ آسانی سے اپنے آپ کو عورت لکھوا کر شادی رجسٹریشن کروا سکتا ہے، اسی طرح کوئی عورت کسی عورت سے شادی کر سکتی ہے یہ تو واقعی سراسر شریعت کے خلاف اقدامات ہیں اور جو عذاب الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جہاں تک رائے کا تعلق ہے اگر اسے دیکھا جائے تو اس معاملے میں میڈیکل ریورٹ کو لازم قرار دے دیا جائے تو مسئلہ بہت حد تک حل ہو سکتا ہے ورنہ بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں یہ Gays اور Lesbians کا قانونی رستہ ہموار کرنے کی کوشش تصور کی جائے گی، اس حوالے سے یوکے میں 2004میں جنسی تعین کے ایکٹ بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے جس میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے، تاہم بعض عناصر موجودہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ دستورِ پاکستان ہر شہری کو وقار کا حق فراہم کرتا ہے اور جنس کے تعین کی غرض سے صرف ٹرانس جینڈرز کو طبی معائنے کی تکلیف سے گزارنا امتیازی سلوک کے زمرے میں آئے گا۔ نارتھ ویسٹ بولٹن اور گریٹر مانچسٹر سے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام ممتاز عالم دین مفتی محمد خان قادری،قاری جاوید اختر،قاری سمندر خان،مولانا محمد ایوب چشتی،علامہ مفتی نصیراللہ نقشبندی اور مولانا ایوب چشتی سمیت متعدد دیگر علماءنے اس حوالے سے کہا کہ پاکستان میں شریعت کے خلاف جو قانون پاس کیا گیا ہے اسے قرآن اور حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو شریعت اس کی مخالفت کرتی ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ قانون نافذ نہ کیا جائے جس کے نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں پر برے اثرات مرتب ہوں گے، اس قسم کے بل اللہ کے غضب کو آواز دینا ہے، اسلامی ریاست میں اس قسم کا بل لانے والے اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ کر رہیں گے، موجودہ حکمرانوں نے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ایسا کیا ہے، انہیں قوم لوط سے سبق حاصل کرنا چاہے یہ ہم جنس پرستی کا بل جو پارلیمنٹ میں پاس کیا گیا ہے، یہ سراسر غیر اسلامی غیر اخلاقی لغو آئین پاکستان کے بھی منافی ہے، یو کے اور یورپ کے مسلمانوں نے اسے مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور ایسے قوانین کو بنا کر اس کی دیواروں کو ہر گز کمزور نہ کیا جائے، اسلامی ریاست میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ جس کا سہارا لے کر ایسے قوانین کو نافذ کیا جائے،علماء نے اس قانون کی سختی سے مذمت کی ہے اور اسے فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔