سندھ کی سیاست سیلاب کے گرد گھوم رہی ہے

October 06, 2022

سندھ کی سیاست سیلاب کے گردگھوم رہی ہے بارش ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سندھ کے سینکڑوں دیہاتوں سے پانی نہیں نکالا جاسکا حکومت وانتظامیہ کی لاپروائی کے سبب جلدی امراض، گیسٹرو، ڈینگی میں اضافہ ہورہاہے اب تک اموات کا درست تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکا تاہم آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب اور امراض سے مرنے والوں کی تعداد ہزار سے بڑھ چکی ہے نوشہروفیروز میں زمینی رابطہ تاحال بحال نہیں ہوسکا ہزاروں لوگ بے یارو مددگار ہوگئے۔

سکھرخیرپور کے متعدد اضلاع بھی تاحال پانی کی لپیٹ میں، منچھرجھیل میں کٹ اور شگاف کے باعث انڈس ہائی وے پر ٹریفک بحالی ناممکن ہوگئی، سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت امدادوبحالی کے لیے اعلانات تو کررہی ہے مگر ہم لوگ اب تک حکومتی اقدامات کے ثمرات سے محروم ہیں۔

سندھ کی عدم توجہی ولاپروائی کا شاخسانہ ، سیکڑوں دیہات سیلابی وبرساتی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، زمین رابطہ منقطع ، ہزاروں لوگ بے یارومددگار حکومتی امداد کے منتظر ہیں، نوشہروفیروز ، خیرپور، سکھر سمیت دیگر دیہی علاقے برساتی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، ضلع نوشہروفیروز کے علاقے بھورٹی کے گاؤں حاجی شفیع میمن گاؤں ، دین محمد، بچل عالمانی، عمرسہتو، حاجی خیر محمد سمیت خیرپورکے علاقے فیض گنج، ہنگورجہ، ہالانی، سکھر کے علاقے روہڑی، علی واہن، صالح پٹ ودیگر دیہی علاقوں میں4 سے 5 فٹ تک پانی منقطع ہے، آمدورفت کے لیے بھی لوگ کشتیوں کا استعمال کررہے ہیں ، پانی میں مچھر و مکھیوں کی افزائش نسل ہورہی ہے ، گیسٹرو، ملیریا، ڈائریا، ہیضہ، پیٹ وجلدی امراض جنم لے رہے ہیں، جابجاسانپ بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

لوگوں کے مال مویشی مرچکے ہیں، مچھروں، سانپ ودیگر موذی حشرات الارض سے اپنے اہلخانہ کو محفوظ رکھنے کے لیے لوگ جاگ کر رات بھر پہرہ دے رہے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت وانتظامیہ نے ہمیں لاوارث چھوڑ دیا ہے، بے یارومددگار ہیں، کوئی پرسان حال نہیں، حکومت متاثرین کی امدادوبحالی کے لیے اعلانات توکررہی ہے مگر ہم لوگ اب تک حکومتی اقدامات کے ثمرات سے محروم ہیں، بچے، بزرگ، خواتین اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں،انہوںنے وزیراعلیٰ سندھ ودیگر اعلیٰ حکام سے اپیل کی کہ خدارا ہمارے علاقوں سے سیلابی وبرساتی پانی کی نکاسی کے لیے اقدامات کئے جائیں تاکہ ہم لوگ بھی اپنی زندگی کا سفر دوبارہ سے شروع کرسکے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی چیئرمین حناجیلانی نے کہاہے کہ سندھ میں سیلاب زدگان کی صورتحال بہت خراب ہے، ریاست کا متاثرین کی بحالی کے لیے مایوس کن کردار ہے، اگرفوری طور پر حکومت نے متاثرین کی بحالی کے لیے عملی اقدامات نہ کئے تو پھر انارکی پیدا ہوسکتی ہے۔ حیدرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہاکہ حکومت، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ بیشتر علاقوںمیں سیلاب کی صورتحال برقرار ، گندم کی نئی فصل کاشت نہیں ہوسکے گی، قحط کا خطرہ پیدا ہوجائے گا، پاک فوج سے مدد لی جائے۔

خیرپورضلع کے بیشتر علاقوں میں سیلاب کیصورتحال برقرار ہے حالیہ مون سون کی قیامت خیز بارش کی وجہ سے کوٹڈیجی، نارا، ٹھری میرواہ اور فیض گنج کے 70 فیصد علاقے سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ صوبھوڈیرو، گمبٹ ، کنگری، ہنگورجہ، رسول آباد، بچل بھنبھرو، وانیاولیج اور دیگر علاقوں میں سیلاب نے بڑی تباہی مچائی ہے کھجور، کپاس، گنا اور دیگر فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، سڑکیں سیلابی پانی میںڈوبی ہوئی ہیں، بیشتر دیہاتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہے۔

صورتحال نہایت سنگین اور خراب ہے۔سندھ حکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ورلڈبینک سے ایک ارب ڈالر رقم بطور قرض مانگ لی،ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں سندھ حکومت اور ورلڈ بینک کے نمائندوں کے درمیان تین اجلاس ہوچکے جس میں ورلڈبینک کی جانب سے صوبے میں بارش متاثرین کی فوری امداد کرنے، ان کی بحالی ، صحت مراکز قائم کرنے سمیت پانی کے اخراج کے لیےحکمت عملی بنانے سے متعلق بریفنگ لی گئی۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کے پاس وسائل نہیںہیں اس لیے فوری طور پر ایک ارب ڈالر کاقرض جاری کیا جائے تاکہ سیلاب متاثرین کی فوری امداد کرنے، ان کی بحالی، صحت مراکز قائم کرنے میں دشواریاں پیدا نہ ہوں۔

ادھرعدالت کی جانب سے کے الیکٹرک کو شہریوں سے کچرا اٹھانےکا ٹیکس نالینےکے حکم کے بعد ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے استعفیٰ دے دیا تھا جو تاحال منظور نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ 7 ماہ بعد بھی 6 پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل سندھ اسمبلی کی 23 رکنی سلیکٹ کمیٹی بلدیاتی قانون میں ترامیم کے لیے تجاویز تیار کرنے میںناکام رہی ہے۔ کراچ کے کے بلدیاتی انتخابات کے مزید التوا پر سخت ردعمل کا اندیشہ ہے۔

مرتضیٰ وہاب صدیقی کے استعفےنے صورتحال کو دلچسپ بنادیا ہے۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ایک مضبوط گروپ کی رائے ہے کہ مرتضیٰ وہاب کو عہدے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی جائے اور ساتھ ساتھ شہر میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے بالخصوص سڑکوں کی تعمیرومرمت کی رفتار تیز کی جائے۔وفاقی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان کی نظریں بھی اس عہدے پر ہیں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے "فی الحال کسی الیکشن کے لیے تیار نہیں" کے بیان کو بھی اہم قرار دیا جارہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ بلدیہ کراچی کی وصولیاں کے الیکٹرک کے بل کےذریعے کرنے کے حوالے سے لوگوں میں ردعمل پایا جاتا ہے مگر اتنا بھی نہیںکہ ایڈمنسٹریٹر کااستعفیٰ منظور کرلیا جائے، بعض ذرائع کادعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم سے معاہدے میںکراچی کے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی شامل تھا اور پیپلزپارٹی موقع کی تلاش میں تھی۔ پیپلزپارٹی کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وعدہ وفا کرنے کا یہ بہترین موقع ہے ان رہنماؤں کا یہ بھی خیال ہے کہ بلدیاتی انتخاب کے لیے عہدہ فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن رہا ہے، مجموعی طور پر یہ محسوس کیاجارہا ہے کہ بلدیاتی قانون میں بہتری کے بغیر کسی بھی بلدیاتی انتظامی سربراہ کے لیے مثالی کارکردگی دکھانا بہت مشکل ہے۔

ادھر سندھ میں بلدیاتی انتخاب کے حوالے سے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی مہم میں بہتری پیدا ہوگئی ہے۔ اس ضمن میںجماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے نیو ایم اے جناح روڈ پر بلدیاتی انتخاب کے سلسلہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نا اہلی اور بے حسی کے باعث ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارلخلافہ مسائل کی آماجگاہ اور جرائم کا گڑھ بن گیا ہے۔