زندگی بھر کیلئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، چیف جسٹس

October 06, 2022

فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ زندگی بھر کے لیے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیصل واوڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے۔

فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے نہ حقائق چھپائے نہ بددیانتی کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل وسیم سجاد سے سوال کیا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی کب جمع کرائے؟

وکیل وسیم سجاد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی 7 جون 2018 کو جمع کرائے، ان کے کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی 18جون کو ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال کیا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی کب جمع کرایا تھا؟

فیصل واوڈا کے وکیل نے جواب دیا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا امریکی شہریت چھوڑ دی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے فیصل واوڈا کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ نے کس تاریخ کو امریکی سفارت خانے جا کر نیشنیلٹی منسوخ کرائی؟

وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ میرے موکل نے امریکی سفارت خانے جا کر کہہ دیا تھا کہ نیشنیلٹی چھوڑ رہا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے ایمبیسی جا کر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ کینسل کر دو؟

وکیل نے کہا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال کیا کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے آپ نے زحمت ہی نہیں کی کہ دہری شہریت کا معاملہ ختم کریں؟

وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نادرا نے 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت کینسل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ نے امریکی سفارت خانے جا کر شہریت کینسل نہیں کرائی تو نادرا نے سرٹیفکیٹ کیسے جاری کر دیا؟

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا کی امریکی شہریت کینسل نہیں ہوئی تھی۔

فیصل واوڈا کے وکیل نے کہا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بددیانت یا بےایمان نہیں کہا جاسکتا، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فیصل واوڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے۔

فیصل واوڈا کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے، دہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی۔