امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ

October 07, 2022

مولانا حافظ عبد الرحمان سلفی

اللہ رب العالمین نے انسانی تاریخ کے ہر دور میں بنی نوع آدم کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے مختلف اقوام و ملل میں آکر مریضان شرک و ضلالت کو توحید ربانی کے چشمہ صافی سے سیراب کرا کر حیات جاودانی سے ہمکنارکیا۔ تاہم ہر نبی و رسول کی دعوت محدود اثرات کی حامل تھی۔اس پر ستم یہ کہ اکثر لوگوں نے نہ صرف اپنے انبیاء کی تکذیب کی، بلکہ انہیں ناحق قتل تک کر ڈالا۔

اسی طرح صدیوں کا سفر جاری تھاکہ انبیاء کی تعلیمات مسخ کردی گئیں اور سرزمین عرب بالخصوص شرک و بت پرستی کا گڑھ بن گئی ‘اور اللہ کے بندے اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ اصنام کی پوجا پاٹ میں مصروف ہو گئے اور بیت اللہ جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہم السلام نے اللہ کی عبادت کے لئے تعمیرکیا تھا 360معبود ان باطلہ کی آماج گاہ بن چکا تھا۔

غرض یہ کہ ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں ۔کہیں ستاروں کی پوجاہو رہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلو ب و اذہان بھسم کئے جارہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اللہ کا گھر اس کے خلیل ؑنے تعمیر کیا تھا اور دعا کی تھی کہ ترجمہ! اے ہمارے رب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے۔ بے شک تو غلبہ والا اورحکمت والا ہے۔ (سورۃ البقرہ )

اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بشارت دی۔ ترجمہ! اور جب مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے میری قوم ،بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں‘ جن کا نام احمد ہے‘ پر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔(سورۃ الصف)

اسی طرح دیگر انبیائے کرام ؑ نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمت ﷺ آنے والے ہیں تووہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر بی بی آمنہ کے بطن سے ہویدا ہوا اور اس کی پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور بیت اللہ میں رکھے گئے بت سرنگوں ہوگئے اور آتش کدئہ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آرہا تھا، بجھ گیا اور پوری کائنا ت ارضی کویہ پیغام ربانی دیا گیا کہ اب وہ ہستی کائنات میں تشریف لا چکی جو ہر قسم کی شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔

عبدالمطلب کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ تھا۔وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لئے بیت اللہ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا محمد ﷺ۔ سب لوگ حیران ہو گئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کے ہیں۔ یہ نام اللہ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اللہ کا نام بلند ہوگا۔

اس کے محبوب ﷺ کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔ اذانوں میں جہاں ’’اشھدان لاالٰہ الااللہ‘‘ کہا جاتا ہے، اسی سے متصل ’’اشھدانّ محمد رسول اللہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، بلکہ اللہ رب العالین نے ارشاد فرمایا :’’وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن‘‘ ترجمہ! ( اے نبی ﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(سورۃ الانبیاء) یعنی جہاں جہاں تک میں رب العالمین ہوں، وہاں وہاں تک میرا پیارا رحمۃ للعالمین ہے۔ نبی مکرم ﷺکی پیدائش کی بشارت عالم ارواح میں تمام انبیاء سے عہد لینے کی صورت میں بھی واضح کردی گئی ہے۔

سیدنا آدم علیہ السلام سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نبیوں سے روز اول ہی اللہ تعالیٰ نے یہ قول و قرار اور وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں اپنے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کو تمہارے زمانے میں بھیجوں تو تم پر فرض ہوگا کہ تم ان پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اگر تم اس کا اقرار کرتے ہو تو تمہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجیں گے اور کتا ب و حکمت بھی عطا کریں گے ‘ تو تمام انبیاء و رسل نے اس کا اقرار کیا اور جب وہ انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے توانہوں نے اپنی اپنی امتوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم محمدﷺ کا زمانہ پائو تو ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ گویا تمام انبیاءؑ نے رسالت محمدی ﷺ کا اقرار کیا اور ان کا امتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔

نبی کریم ﷺ ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اورسیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ آپ کے اندر اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف حمیدہ اتمام و اکمال کے ساتھ پیدا فرما دیئے تھے‘ آپﷺ محمد ہیں ‘محمود ہیں‘ احمد ہیں ‘بشیر و نذیر ، سید الخلق ‘امام الانبیاء ‘ سید المرسلین ‘ شفیع المذنبین‘ رحمۃللعالمین بھی ہیں۔ آپ صادق و مصدوق اور امین بھی ہیں۔طیب و طاہر ‘ حامی و حاشر و عاقب ‘ مدثر و مزمل بھی ہیں۔ آپ کی عظمت و رفعت پوری کائنات میں افضل و اعلیٰ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘ترجمہ! اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔ (سورۃ الانشراح) چونکہ آپ ﷺخاتم النبیین بن کر آئے، لہٰذا آپﷺ کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف و کمال مجتمع کر دیئے گئے تھے۔

سرورِ کائناتﷺ نے انسانی تاریخ کی سب سے مثالی ریاست قائم کر کے دکھا دی جو رہتی دنیا تک کے لئے مینارۂ نور ہے۔ غلاموں ‘ یتیموں‘بیوائوں اور مسکینوں ‘مہمانوں حتیٰ کہ جان کے دشمنوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی ‘ عفو و در گزر اور روا داری جیسے اوصاف حمیدہ کے ذریعے برتائو کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں، بلکہ ایسا حسن سلوک وہی کر سکتاہے جس میں اللہ نے صبر و استقامت اور رحمت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھردی ہو۔

رحمۃ للعالمین ﷺ نے جہاں کائنات میں توحید ربانی کا علم بند کیا اور بیت اللہ کو معبودان باطلہ سے پاک کر کے قیامت تک کے لئے خالص اللہ کی عبادت کے لئے خاص کر دیا۔ وہیں اپنی سیرت مبارکہ کے ایسے مقدس و پاکیزہ گہرہائے نقوش چھوڑے جو پوری انسانیت کے لئے منبع رشد و ہدایت اور دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔

ماہ ربیع الاول کی ان ساعتوں میں کہ جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی کو خالص قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے اخلاق و کردار ‘ عقائد و اعمال کی درستی کا اہتمام کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریہ حیات پر عمل پیرا رہ کر دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہم کنار ہونے کی بھرپور سعی و جہد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین یا رب العالمین )