دہشت کی علامت کا خاتمہ

October 09, 2022

بے لگام اور پولیس کے لیے کھلا چیلنج اور چھلاوا بننے والے ڈاکو اپنے انجام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایس ایس پی تنویر تنیونے جدید ٹیکنالوجی اور منفرد تدابیر کی بدولت نہ توپولیس کی بھاری نفری کا استعمال کیا، بلکہ تمام تر وسائل بروکار لائے بغیر ایسی کام یابی حاصل کی کہ نہ صرف کچے میں موجود ڈاکؤوں کے گروہ، بلکہ پکے کے معززین شہری دیگر پولیس افسران بھی حیران ہیں کہ بغیر کسی بڑے آپریشن کے چھوٹو گینگ کے سرغنہ چھوٹو بکھرانی کے بعد بدنامی کی بلندیوں کو چُھونے والا سخی سلطان عرف سلطو شر اور اس کا قریبی ساتھی عیسو شر مختصر سے ٹارگیٹڈ آپریشن میں بغیر کسی پولیس اہل کار کے جانی و مالی نقصان کے کیسے شکنجے میں آگیا اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں اس جہان سے زبردستی رخصت کردیے گئے، چوں کہ کئی سال قبل آئی جی سندھ غلام نبی میمن بھی اسی ضلع گھوٹکی میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور اس وقت کے پاک سعودی کے مغوی انجنئر عامر بشیر کو انہوں نے کچے سے بہ حفاظت بازیاب کرا کر نہ صرف شہرت حاصل کی تھی، بلکہ اپنی بہادری اور نڈر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔

اسی طرح ڈی آئی جی سکھر جاوید سونہارو جسکانی بھی اسی ضلع گھوٹکی میں تعینات رہ چکے ہیں اور انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران ہنی ٹریپ یعنی خواتین کی آواز میں اغوا کرنے والے گروہوں کو ختم کیا اور متعدد مغویوں کو بازیاب کروایا اور ایس ایس پی تنویر تُنیو تو سرحدی ضلع رحیم یارخان کے کچے سے منسلک تحصیل صادق آباد میں بہ طور اے ایس پی اپنے علاقے میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف اپنا لوہا منوا چکے ہیں اور یہ تینوں بالا افسران علاقے کے محل وقوع اور جغرافیائی لحاظ سے بہ خوبی واقف ہیں اور دریائے سندھ میں قائم جزیروں مختلف اقوام نقل و حرکت کے راستوں سے واقف ہیں، جس کی بدولت اوباڑو کے علاقے رونتی میں مقابلے کے دوران سندھ پنجاب کے بدنام زمانہ سرغنہ دو ڈاکو مارے گئے ہیں۔ ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی اور ایس ایس پی تنویر تنیو نے بتایا کہ پولیس کو انتہائی مطلوب دو ڈاکو سُلطو شر اورعیسی شر پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔

سُلطو شر سندھ پنجاب بلوچستان کے ایک ہزار سے زائد اغوا برائے تاوان اقدام قتل ڈکیتی خواتین سے زیادتیاں ہنی ٹریپ پتھاریداری اور تین ایس ایچ اوز سمیت بارہ پولیس اہل کاروں کے قتل میں مطلوب تھا، جس کے زندہ اور مردہ گرفتاری پر حکومت سندھ کی جانب سے ایک کروڑ روپے کا انعام مقرر تھا۔ ڈاکو دریائے سندھ کا بادشاہ کہلاتا تھا، حال ہی میں رحیم یارخان سے دس افراد کو اسلحہ کے زور پر اغوا کیا تھا، جب کہ اس کا ساتھی عیسی شر کے سر کی قیمت پانچ لاکھ مقرر تھی، ابتدائی معلومات میں چند تھانوں پر 28 مقدمات سامنے آئے ہیں، مزید تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گھوٹکی پولیس نے بھاری نفری کی کے ساتھ بڑے آپریشن کی بہ جائے ٹارگیٹڈ کارروائی کررہی ہے۔ یہ پولیس کی خصوصی ٹیم نے کارروائی کی ہے اور آئی جی سندھ نے ٹیم کے لیے پچیس لاکھ روپے اور تعروفی اسناد ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی کے لیے ستارہ شجاعت کا بھی اعلان کیا ہے، جب کہ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کی سربراہی میں یہ آپریشن جاری رہے گا۔ ایس ایس پی تنویر تنیو نے یہی نہیں بلکہ ایسا عملی کام کیا، جس سے نہ صرف پولیس بلکہ شہری بھی ہمت جوش جذبے اور ولولے کے ساتھ ڈاکؤوں کے ساتھ ازخود خاتمے کے لیے جستجو کریں گے اور وہ ہے بدنام اور سنگین مقدمات اور اقدام قتل عام میں مطلوب ڈاکوؤں کے سروں کی بھاری قیمتیں مقرر کرانا ہے۔

جس میں محکمہ پولیس کی جانب سے ضلع گھوٹکی اور رحیم یارخان کے 35 بدنام زمانہ ڈاکوؤں کے زندہ یا مردہ سروں کی قیمت مجموعی طور پر 27 کروڑ 70 لاکھ روپے بہ طور انعام مقرر کردی گئی ہے۔ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر احمد تنیو کی سفارش پر کمیٹی نے منظوری دیتے ہوئے شہزاد دشتی، میر جاگیرانی ڈاکوؤں پر انعام مقرر کیا گیا، جب کہ گزشتہ سال صادق آباد کے علاقے ماہی چوک میں 9 افراد کو قتل کرکے گھو اتنی کے کچے میں پناہ حاصل کرنے والے اندھڑ گینگ کے سربراہ ڈاکو جانو اندھڑ پر دو کروڑ روپے انعام مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکو پرویز جاگیرانی، رانو شر پر بھی دو دو کروڑ روپے ڈاکو جمیل اندھڑ پر ڈیڑھ کروڑ ڈاکو راحب شر، کراڑو شر، شہزاد دستی، میر جاگیرانی، ثناءاللہ شر پر ایک ایک کروڑ روپے انعام مقرر کردیا گیا ہے، جب کہ انعام یافتہ ڈاکوؤں پر پولیس پارٹی پر حملے، قتل، اغوا برائے تاوان، پولیس افسران کی شہادت، ڈکیتی سمیت سنگین نوعیت کے کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔

تنویر تنیو کا کہنا ہے ان کی حکمت عملی میں چھوٹے ڈاکوؤں کو گرفت میں لانے کی بہ جائے بڑے ڈاکؤوں سے شروعات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ جس سے نئے بننے والے ڈاکوؤں کا آئڈیل ہی ختم ہوجاتا ہے اور سرکش لوگوںکے لیے نشان عبرت ہوتی ہے، جب سرغنہ مارا جاتا ہے، تو ڈاکوؤں میں وہ سکت نہیں رہتی ہے۔ تنویر تنیو نے شکارپور میں بھی انڈس ہائی وے کو محفوظ کیا اور ڈاکوؤں کے سامنے اور ان کی اہم گزرگاہوں پر چلتی گولیوں میں منی تھانوں جیسی چوکیاں قائم کرائیں اور ڈاکوؤں کی بندوقوں اور ڈکیٹیوں کو بند کیا، یہی نہیں بلکہ دو کروڑ پچاس لاکھ کا انعام یافتہ نذرو ناریجو پچاس لاکھ یافتہ خیر محمد عرف خیرو بھٹی، جھنگل تیغانی جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ مقرر تھی۔

ان تینوں بدنام زمانہ ڈاکوؤُں کو ٹھکانے لگا کر شہریوں کے جان مال عزت کو محفوظ بنایا ہے، جب کہ ایک ماہ کے دوران بھی ضلع گھوٹکی پولیس نے نمایاں کارکردگی دکھائی ہے اور جوا، بکی، آکڑا پرچی تاش کے جواریوں ڈیوائس سے بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب خواتین سے کٹوتی کرنے والوں، پان پراگ شراب فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور اغوا برائے تاوان ایس ایچ او کے قتل ڈکیٹی لوٹ مار زیادتی کے 30 مقدمات میں سندھ پنجاب کا بدنام زمانہ ڈاکو بنی بنگوار اور اغوا ڈکیٹی سمیت سنگین مقامات میں مطلوب عبدالمجید شر اور نثار عرف چریو مہر جوکہ بیس سنگین مقدمات میں مطلوب پولیس مقابلہ میں ہلاک گیا ہے اور 11زخمی ڈاکؤں کو اسلحہ سمیت گرفتار کیا۔

اس دوران187 روپوش 190 جواری۔ 112 منشیات فروش کو گرفتار کرکے مقدما ت قائم کردیے گئے ہیں، ملزمان سے19 پسٹل 3 کلاشنکوف 6 بندوق اور 30 مسروقہ موٹر سائیکلیں برآمد کی گئی ہیں۔ اور اب یہی وجہ ہے ایسے افسران کو خصوصی ٹاسک کے تحت اس بین الصوبائی سرحدی علاقے پر تعینات کیا گیا ہے، تاکہ گھوٹکی کشمور جیکب آباد رحیم یارخان راجن پور کے افسران بین الصوبائی ہم آہنگی کرکے ڈاکؤں کا جڑ سے خاتمہ کرسکیں اور نو گو ایریا کو ختم کیا جاسکے اور یہی نہیں بلکہ پشاور کے اسلحہ اسمگروں کی سرپرستی میں پنجاب کے دریائی علاقوں کے زذریعے ڈاکوؤں کے گروہوں کے لیے کشتیوں پر آنے والے بھاری اسلحہ کو روکا جاسکے، مگر بدقسمتی سے سرحدی ضلع رحیم یارخان میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے اور ڈاکو سرے عام پارلیمنٹرین چیئرمین یونین کونسلوں اور کونسلروں معززین کو بھتہ خوری اغوا قتل کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور ڈکیٹیاں بھی مارہے ہیں اور پولیس ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود وارداتیں روکنے میں ناکام ہے۔

ڈاکوؤں کی سرکوبی اور ہمیشہ خاتمے کے لیے سندھ پنجاب کے کچے کے علاقے میں رینجرز کی مستقل تعیناتی بلٹ پروف کشتیاں اور بلٹ پروف ہیلی کاپٹر ناگزیر ہیں، جب کہ فورسسز کی کچے میں تعیناتی سے ایک تو گھنا جنگل دوبارہ آباد کیا جاسکتا ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے اور ساتھ میں کچے میں سرکاری زمینوں سے قبضے واگزار کرکے فصلوں کی کاشت سے اربوں روپے کا ریوینیو حاصل کیا جاسکتا ہے۔