وزیراعلیٰ پرویز الٰہی لانگ مارچ میں کس حد تک ساتھ دیں گے

October 13, 2022

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں اور اس کی بھرپور تیاریاں کی جارہی ہیں ایک طرف پنجاب اور خیبرپختونخواہ جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں قائم ہیں۔ ایسے موقع پر اگر عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو یقیناََ ملک کی سلامتی کے ادارے اپنا کردار ادا کریں گے لہٰذا تحریک انصاف کو اپنی پالیسی پر از سر نو غور کرنا ہو گا۔ ملک بھر میں حالیہ سیلاب کے بعد پانی اتر رہا ہے اور پنجاب میں تو تقریبا سیلابی پانی اتر چکا ہے۔

پنجاب میں سیلابی پانی اترنے کے بعد اب سیلاب متاثرین کی بحالی کا مشکل ترین مرحلہ شروع ہوچکا ہے اگلے چند ہفتوں میں کچھ علاقوں میں موسم سرد ہو جائے گا مگر سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کس قسم کے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے وہ نہیں ہوسکے جس سے ایک بڑی شدید قسم کی پریشانی جنم لے رہی ہے اورپنجاب حکومت کی عوام کی نظروں میں نیک نامی متاثر ہو رہی ہے دوسری طرف سیلاب متاثرین کے لیے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہی بھی اس مشکل صورت حال کو اس طرح سے ہینڈل نہیں کر پا رہے یا یوں کہہ لیں کہ وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے کیے گئے اقدامات کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے شاید اس مسئلہ کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی تک ان مسائل کی درست رپورٹنگ ہی نہ ہو رہی مگر اس کو عزر نہیں بنایا جاسکتا وزیر اعلی پنجاب کو سیلاب متاثرین کی داد رسی کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔

اس مقصد کے لیے انہیں اپنے سابقہ دور حکومت رفقاء اور بیروکریٹس سے مدد لینی چاہیے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی طرف سے لانگ مارچ کے حوالے سے بھی پنجاب حکومت کے بارے میں چہ میگویاں کی جا رہی ہیں کیا وزیراعلیٰ پرویز الٰہی لانگ مارچ میں پنجاب سے کس حد تک ساتھ دیں گے یقینا تحریک انصاف کی پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں حکومتیں ہیں اور ان دونوں صوبوں کی حکومت سے پی ٹی آئی کو بہت امیدیں وابستہ ہیں دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کس حد تک اس لانگ مارچ کو کامیاب بنانے میں مدد کرتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

بہرحال ان حالات میںپنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر کا مستعفیٰ ہونا بڑا سوالیہ نشان ہے آنے والا وقت بتائے گا کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا یا ان سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا ہے ۔ پنجاب میں بیوروکریسی میں تبادلے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کا انتخاب مکمل طور پر میرٹ پر کیا جائے اور پھر ان کو اپنی ٹیم بنانے کا موقع دیا جائے جس کی کاکردگی کے وہ خود دمہ دار ہوں۔

ان سے افسران کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جائے اور اچھا پرفارم نہ کرنے والے افسران کو تبدیل کر دیا جائے یا پھر ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی جائے مگر یہاں پر صورتحال یہ ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل "طاقت ور میرٹ" کے ہتھیار ڈال کر پچھلے تین ہفتوں سے چھٹی پر ہیں اور ان کا چھٹی سے واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اب انہوں نے چھ نومبر تک چھٹی لے لی ہے۔ ریگولر چیف سیکریٹری نہ ہوتے ہوئے بھی جس طرح سے تبادلے کیے جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ" طاقتور میرٹ" کی بنیاد پر تقرر تبادلے ہو رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور میں عدالت میں پیشی کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی طرح پنجاب میں بھی آئینی طور پر حکومت کی تبدیلی پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا جس سے یہ اندازہ مشکل نہیں ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پنجاب کی وزارت اعلی کو اپنے کھاتے میں لانا چاہتی ہے اور کوئی سنجیدہ کوششیں بھی کی جا رہی ہیں اس خیال کو یہ دیکھ کر اور بھی تقویت ملتی ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان واپسی کے لیے پر تو ڑرہے ہیں اور پنجاب تبدیلی کے لیے پر اعتماد بھی ہیں۔

میاں نواز شریف کو کہیں سے لائن مل رہی ہے۔ جس سے وہ پر اعتماد ہیں اور مقتدر قوتوں کے ساتھ ان کی لائن سیٹ ہو گئی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود جب تک پاکستان میں میاں نواز شریف کے خلاف قائم مقدمات ختم نہیں ہوجاتے اس وقت تک نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے اور ہوسکتا ہے کہ مریم نواز کا لندن میں قیام بھی بڑھ جائے۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ انکے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور تاحیات نااہلی بھی غیر قانونی تھی۔