بلدیاتی انتخابات: تحریک انصاف میں گروپ بندی کا خدشہ

November 03, 2022

آزاد جموں کشمیر میں طویل عرصے کے بعد بنیادی جمہوریت کی بحالی کیلئے انتظامات آخری مراحل میں داخل ہوگئے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو انکے پرانے نشانات الاٹ کرنے کے علاوہ آزاد امیدواروں کو بھی نشانات کی الاٹمنٹ کا مرحلے مکمل ہوگیا اب انتخابات آخری مراحل کی طرف جارہے ہیں لیکن ابھی بھی غیر یقینی صورت حال برقرار ہے آئے روز حکومتی کارندوں کی جانب سے انتخابات ملتوی ہونے کی افوائیں آتی ہیں حکومت آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی گروپ بندی کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے خدشات کے پیش نظر آزاد جموں و کشمیر عدالت اعظمی سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کیلئے نظر ثانی اپیل تیار کی ہوئی ہے وزرائے حکومت بیک ڈور ڈپلومیسی میں مصروف ہیں کہ انتخابات ملتوی کرنے کا موقع مل جائے۔

دوسری جانب الیکشن کمشن کی جانب سے ہر صورت میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے پرعزم ہے کہ انتخابات شڈول کے مطابق ہونگے انتخابات میں امن وامان برقرار رکھنے کےلیے 30ہزار کی نفری درکار ہر جبکہ آزاد کشمیر میں دس ہزار کے قریب پولیس کی نفری ہے کے پی کے اور پنجاب سے پولیس کو انتخابات میں لایا جاتا ہے ادھر وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے سیکورٹی کے انتظامات کے حوالے سے خبریں آئی ہیں کہ پاکستان کے سیاسی حالات کے پیش نظر سیکورٹی کے لیے فورسز دستیاب ہونا مشکل ہے اور موسم کا بہانہ بنانے کی بھی باتیں ہورہی ہیں جب تک حکومت الیکشن کمشن اور عدالت اعظمی انتخابات کے لیے ایک پیج پر نہیں ہونگے تو انتخابات کا انقعاد کرنا مشکل ہوجائے گا۔

عوام کی جانب سے بھرپور انتخابی مہم جاری ہے تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر کارکنوں کے اندر سخت مایوسی پائی جاتی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے بانی لوگوں کو نظر انداز کرکے نئے آنے والوں کو ٹکٹ دیے ہیں جس سے تحریک انصاف کے کارکن دیگر جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں مظفر آباد ڈویژن میں تحریک انصاف کو ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد بڑا دھچکا لگا ہے نیلم مظفر آباد اور ہٹیاں بالا میں تحریک انصاف کے امیدواروں اور کارکنوں کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں شامل ہورہی ہے آزاد کشمیر کے دیگر اضلاع میں بھی حکومتی امیدواروں کو مشکلات کا سامنا ہے پونچھ ڈویژن اور میرپور ڈویژن میں بھی حکومتی جماعت کی پوزیشن ابھی تک کوئی اچھی نہیں جبکہ مظفرآباد ڈویژن میں پیپلزپارٹی کو ن لیگ اور تحریک انصاف پر برتری حاصل ہے۔

اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کی قیادت نے الیکشن 2021 میں جو انتخابی وعدے کیے تھے وہ بھی پورے نہیں ہوئے اس کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر نے گزشتہ سات ماہ کے دوران تقریباً 500 ارب سے زیادہ کے اعلانات کیے ہیں جن کو پورا کرنا انتہائی مشکل ہے عوام کے اندر ایک سوچ پیدا ہورہی ہے کہ تحریک انصاف نے ایک سال پہلے کا ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا آزاد کشمیر بھر میں تعمیر و ترقی کی پہیہ جام ہے ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات مہیا نہیں کی جارہی سڑکیں کھنڈرات بنی ہوئی ہیں دارلحکومت میں تعمیراتی ادارے عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔

اب بلدیاتی انتخابات میں جو وعدے ہونگے ان کو کیسے پورا کیا جائے گا وزیر اعظم آئے روز اپنے قریبی ساتھیوں کا ساتھ کھو رہے ہیں اعلی بیروکریسی میں ہر ہفتے اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے فائل ورک نہیں ہورہا پاکستان کے سیاسی حالات بھی آزاد کشمیر کے حالات پر فوری اثر انداز ہوتے ہیں حکومت کے اندر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں وزرائے حکومت اراکین اسمبلی بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کے حق میں نہیں ہیں تحریک انصاف کے وزرائے حکومت نے اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم شروع نہیں کی جس کے باعث اپوزیشن جماعتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور انتخابی مہم شروع کی ہوئی ہے انہیں اس کے فوائد بھی مل رہے ہیں۔

کاغذات نامزدگی واپس کرنے کی آخری تاریخ پر بڑی تعداد میں لوکل کونسل کے امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں ابھی تک آزاد کشمیر بھر سے پیپلز پارٹی کے سب سے زیادہ امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں ضلع کونسل سے ابھی تک کوئی امیدوار بلامقابلہ منتخب نہیں ہوپایا اگر دس اضلاع میں تحریک انصاف ضلعوں میں اپنے چیرمین بنانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر انکے لیے عوام کو مطمئن رکھنا مشکل ہوجائے گا تحریک انصاف کی حکومت پہلے سے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے اوپر سے بلدیاتی انتخابات سے حکومتی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت کیلئے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنا اور انتخابات کروانا ہر صورت میں مشکلات پیدا ہوگی ہیں ملتوی کرنے میں سخت عوامی ردعمل سامنے آئے گا اور کرانے کی صورت میں اپنی شکست سامنے نظر آرہی ہے ابھی بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کو 24دن باقی ہیں اس دوران حکومت کارکنوں اور عوام کو اپنی طرف لانے میں کتنا کامیاب ہوتی ہے اور اپوزیشن حکومتی لوگوں اپنے ساتھ ملانے میں کتنا کامیاب ہوتی ہے اب کی بار عوام موقع پر کارکردگی کا سوال کررہے ہیں ماضی کے وعدوں پر دھان نہیں دیے گی ووٹرز کے اندر شعور بیدار ہورہا ہے حکومت اور اپوزیشن والے پورا زور لگائے گئے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج ان کے حق میں رہے۔