’’قوت برداشت‘‘

November 12, 2022

شاہ بلوچ

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ، نسلِ نو میں قوتِ برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ غصّہ ہونا،جھگڑا کرنا ان کا معمول بنتا جارہا ہے۔ نوجوان اپنے ساتھی کی زبان سے کوئی اختلافی جملہ سننے تک کو تیار نہیں ہوتا، اب تو نوبت گالم گلوچ تک پہنچ گئی ہے۔ گھر ہو کہ محلہ ، بازار ہو یا دفتر ، کچہری ہو یا اسمبلی ہر جگہ افراد دست وگریباں نظر آتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑنے کےلئے تیار رہتے ہیں۔

اس بنا پر بات کرنے کا سلیقہ ، ادب احترام سب ختم ہوتا جا رہا ہے،جبکہ قوت برداشت ان اعلیٰ صفات میں سے ایک ہے جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر،کام یابی وکام رانی، عزت و عظمت اور ترقی وسر بلندی کا ذریعہ ہیں۔ تحمل وہ دولت ہے جس کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی حالت میں اُن پر غضب کو غالب نہیں آنے دیتی۔

غصہ دنیا کے 90 فیصد مسائل کی جڑہے، اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تو اس کی زندگی کے 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں۔ ذیل میں چند نامور شخصیات کے بارے میں ملاحظہ کریں، اُن میں کتنی برداشت تھی۔

آپ نے رستم زماں گاما پہلوان کا نام سنا ہوگا۔ ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا ،ایک دن ایک دکاندار نے گاما پہلوان کے سر پر وزن کرنے والا باٹ مار دیا۔ گاما کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے، اس نے سر پر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا۔ انہیں دیکھ کر لوگوں نے کہا،’’ پہلوان صاحب، آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی آپ دکاندار کو ایک تھپڑ ہی مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی۔ گاما پہلوان نے جواب دیا ،’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں ،میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زماں رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی۔‘‘

چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے معروف لیڈر تھے اور تمام لیڈروں سے آگے تھے۔ انہیں انگریزی زبان پر عبور تھا لیکن انہوں نے پوری زندگی، انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔ ان ذرا آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ، انہیں انگریزی میں لطائف سنائے جاتے تو وہ سن لیتے لیکن ہنستے نہیں تھے کہ وہ قومی زبان کو اہمیت دیتے تھے، جب مترجم لطیفے کا ترجمہ کر کے سناتا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے۔

ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا بھی قصّہ ملاحظہ کریں۔ انہیں ایک بار خارش کا مرض لاحق ہوگیا ۔ان کی بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن، شبانی خان ان کی عیادت کے لیے آیا۔ بابر بیماری کی حالت میں کیسے اپنے دشمن کے سامنے جاتے۔ لیکن ہو یہ کہ ، بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گئے، تقریباََ وہ آدھا دن اس کے سامنے بیٹھے رہے جسم پر شدید خارش ہو تی رہی لیکن بابر نے برداشت کی ایک منٹ بھی دشمن کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ تکلیف سے بے چین ہو رہے ہیں۔

دنیا میں لیڈرز ہوں سیاستدان ہوں حکمران ہوں یا عام انسان ہوں ان کی اصل قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کرسکتا۔ درج بالا چند مشہور شخصیات کے برداشت کے واقعات نوجوان نسل کو بتانے کا یہی مقصد ہے کہ صرف وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ برداشت دنیا کی سب سے بڑی اینٹی بائیوٹک او ملٹی وٹامن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بالخصوص نوجوانوں میں عدم برداشت کا رجحان پروان چڑھ رہاہے۔ اس پر قابو پالیں گے تو کچھ کر پائیں گے۔