ٹی 20 ورلڈ کپ، بیٹنگ لائن کی خراب کارکردگی پاکستان کی شکست کا سبب

November 15, 2022

پاکستان ورلڈ کپ نہ جیت سکا انگلینڈ ٹی ٹوئینٹی کا ورلڈ چیمپین بن گیا۔میلبورن میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ نے پاکستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر دوسری مرتبہ یہ ٹائٹل اپنے نام کیا۔ بین ا سٹوکس نے 49 گیندوں پر 52 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرایا۔ کپتان بابر اعظم کے مطابق پاکستان20 رنز کم بنا سکا۔صرف 12 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کرنے والے سیم کرن کو میچ اور ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اوپنر بابر اعظم اور محمد رضون کے جلد آوٹ ہونے کے بعد پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ بوجھ نہ اٹھاسکی اور انگلینڈ ٹی ٹوئینٹی کا نیا عالمی چیمپین بن گیا۔

انگلینڈ اس وقت 50اوورز ورلڈ کپ کا بھی چیمپین ہے۔ چند ہفتے قبل پاکستان کو ایشیا کپ فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔جبکہ گذشتہ سال پاکستان کو ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے شکست دی تھی۔ جوز بٹلر کی انگلش ٹیم کو ٹرافی کے علاوہ 1.06 ملین ڈالرز ملے پاکستانی کرنسی کے حساب سے 36 کروڑ 22 لاکھ اور 64 ہزار روپے بنتے ہیں جبکہ رنر اپ پاکستان کو 8 لاکھ امریکی ڈالرز 18 کروڑ گیارہ لاکھ روپے ملے۔ٹورنامنٹ کی مجموعی انعامی رقم 5.6 ملین ڈالر زتھی ،پاکستانی کرنسی کے حساب سے تقریبا 1 ارب 26 کروڑ 79 لاکھ روپے کے قریب بنتی ہے۔

فائنل میں 80ہزار سے زائد تماشائیوں کی موجودگی میں انگلینڈ نے دوسری مرتبہ یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ شاہین آفریدی فائنل میں اور فخر زمان فائنل سے قبل ان فٹ ہوگئے۔ دونوں گھٹنوں کی انجری سے صحت یاب ہوکر ورلڈ کپ کی ٹیم کا حصہ بنے تھے۔ فائنل میں شاہین شاہ آفریدی13گیندیں کرانے کے بعد گھٹنے کی تکلیف کی وجہ اپنے چار اووز کا کوٹہ مکمل نہ کرسکے۔ابر آلود موسم میں انگلینڈ کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان نے 20 اوورز میں آٹھ وکٹوں پر 137 رنز بنائے تھے۔

انگلینڈ نے ایک اوور پہلے ہدف پانچ وکٹ پر پورا کرلیا۔ پاکستانی کی جانب سے کوئی بیٹسمین نصف سنچری نہیں بناسکا اور پاکستانی بیٹرز نے 44ڈاٹ گیندیں کھیلیں۔ سست بیٹنگ کی وجہ سے اختتامی اوورز میں پاکستان کو رن بنانا مشکل ہوگیا۔ پاکستانی بیٹنگ لائن میں جب بابر اعظم اور محمد رضوان اسکور نہ کریں تو دیگر بیٹسمین دبائو میں دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ فائنل میں بھی بیٹنگ لائن کی خراب کارکردگی پاکستان کی شکست کا سبب بنی۔

بابر اعظم کو اپنی قیادت کے انداز میں بھی اب کچھ انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ابھی تک وہ ایک ایسے کپتان کے طور پر ابھرے ہیں جو ڈریسنگ روم سے ایک طے شدہ سوچ لے کر نکلتا ہے اور گراؤنڈ میں حالات کے جبر کے باوجود اپنے فارمولے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ پاکستانی ٹیم کے بارے میں ایک وقت میں یہی تاثر تھا کہ یہ ٹیم سیمی فائنل نہیں کھیل سکے گی لیکن نیدر لینڈ نے جب جنوبی افریقا کو حیران کن انداز میں شکست دے کر پاکستان کی سیمی فائنل کھیلنے کی راہ ہموار کی تو ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے لئے اس ٹورنامنٹ میں1992کا اسکرپٹ تیا ر ہے۔

سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرانے کے بعد ہرکوئی1992کے ورلڈ کپ کی باتیں کررہا تھا لیکن فائنل میں وسیم اکرم جیسی گیندیں نظر نہ آئیں سیم کرن نے تین وکٹ حاصل کرکے انگلش ٹیم کے لئے اسکرپٹ مکمل کر لیا۔وسیم اکرم کی طرح وہ فائنل کے بہترین کھلاڑی اور پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے۔ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ فائنل سے قبل 1992 کے ورلڈ کپ سے مماثلت کے انبار لگے لیکن اگر کچھ ویسا نہیں ہوا تو وہ فائنل کا حتمی نتیجہ تھا جو اس بار انگلینڈ کے حق میں آیا۔پاکستان کی اننگز کا آغاز تو تقریبا ویسا ہی تھا جیسا کہ 92 میں تھا یعنی ابتدائی بیٹر کچھ جم کر نہیں کھیل سکے۔

یہ پچ کا اثر تھا، انگلینڈ کی بولنگ کا کمال یا پھر بڑے میچ کا دباؤ، بابر اعظم اور رضوان اپنا روایتی کھیل پیش نہیں کر سکے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے ایک بار پھر توپوں کا رُخ اوپننگ جوڑی کی جانب موڑ دیا۔ تاہم ایسے صارفین بھی تھے جن کا خیال تھا کہ پچ کو دیکھتے ہوئے اوپنرز نے سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کے باوجود بابر اعظم کی کپتانی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

بلاشبہ وہ دنیا کے بہترین بیٹسمین ہیں لیکن وہ کپتانی کرتے وقت کچھ ایسی غلطیاں کردیتے ہیں جس سے ٹیم کو مشکل پیش آتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان معین خان نے بابر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹی ٹوئینٹی کی کپتانی سے از خود مستعفی ہوجائیں اور شاداب خان کو کپتانی سونپی جائے۔ معین خان نے کہا کہ بابر اعظم کو کھلاڑی کی حیثیت سے کھیل کر اپنے کیئریئر کو طول دینا چاہیے جبکہ بابر اعظم کو ٹیسٹ اور ون ڈے کی کپتانی پر برقرار رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس فارمیٹ میں بابر اعظم کئی ایسی فاش غلطیاں اور غلط فیصلے کرتے ہیں جس کا خمیازہ پاکستانی ٹیم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لئے بابر کو ٹی ٹوئینٹی فارمیٹ کی قیادت سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔عاقب جاوید بھی معین خان سے متفق ہیں کہ بابر اعظم کو اس فارمیٹ کی کپتانی چھوڑ دینی چاہیے۔ ورلڈ کپ میں پاکستانی بولنگ نے ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا بلکہ جن میچوں میں پاکستان کو شکست ہوئی ان میں بھی بولنگ کا کردار نمایاں تھا۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی جانب سے محمد رضوان اور شان مسعود نے سب سے زیادہ175,175رنز بنائے۔

کوئی پاکستانی بیٹسمین دو سو رنز نہ بناسکا اور کسی نے دو نصف سنچریاں بھی نہیں بنائیں۔ کپتان بابر اعظم نے سیمی فائنل میں نصف سنچری بنائی وہ سات میچوں میں 124رنز بناسکے افتخار احمد نے114شاداب خان نے98رنز بنائے۔ بولنگ میں شاداب خان نے11وکٹ بھی حاصل کئے۔ شاہین شاہ آفریدی نے گیارہ، محمد وسیم اور حارث روف نے8,8 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔پاکستان نے پانچ گروپ میچوں میں سے ابتدائی دونوں ہارے اور آخری تین جیتے۔ پھر سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کوشکست دی اور فائنل میں پاکستانی ٹیم ناکام رہی۔شاداب خان پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کے لئے بھی مضبوط امیدوار تھے۔

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ زمیر راجا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی اور بلین ڈالر انڈسٹری والی ٹیمیں پیچھے رہ گئیں اور ہم ان سے آگے نکل گئے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی چیز تو ہم ٹھیک کر رہے ہیں نا اس لیے آپ اسے انجوائے بھی کریں اور احترام بھی کریں۔دیکھیں ورلڈکپ میں دنیا کی کرکٹ کتنی پیچھے رہ گئی ہے اور پاکستان کتنا آگے چلا گیا ہے۔ ورلڈ کپ کے پہلے دو میچز میں شکست کے بعد لوگ سمجھ رہے تھے کہ ہم باہر ہو گئے لیکن 2009 کی چیمپئن ٹیم نے سب کو غلط ثابت کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیم اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، مشکل صورتحال میں بھی پاکستان ٹیم ایک بن کر رہی، اس ٹیم سے شائقین کو بہت امیدیں ہیں، بھارت سے فائنل ہوتا تو بڑا فائنل ہوتا۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی ٹیم کا اگلا امتحان انگلینڈ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز ہے۔ بابر اعظم ٹی ٹوئینٹی فارمیٹ سے قبل آسٹریلیا سے ہوم ٹیسٹ سیریز ہار چکے ہیں جبکہ سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز ایک ایک میچ سے ڈرا ہوئی تھی اس لئے بابر اعظم کو ہوم ٹیسٹ سیریز میں اسی انگلش ٹیم کی آز مائش سے گذرنا ہوگا جس نے ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان کو شکست دی۔ ورلڈ کپ فائنل میں نصف سنچری بنانے والے بین اسٹوکس ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کریں گے اس لئے ٹیسٹ سیریز میں بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔