’دُعا‘ عبادت کی روح بندگی کا مظہر

November 18, 2022

محمد عمران ولی درویش

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے اور سبب کی مکمل وضاحت ہمارے سامنے موجود نہیں، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات توکل کی خلاف ورزی کرکے ہم خود کو تسلی دینے کے لیے بآسانی کہہ دیتے ہیں کہ دنیا دارالاسباب ہے ،اس میں سبب کا ہونا لازمی ہے ، بغیر سبب کسی کام کے کرنے والے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے ، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو سبب کی کئی قسمیں ہیں :۱۔ سبب ضعیف ۲۔ سبب قوی۔

سبب ضعیف :۔سبب ضعیف وہ ہے جس سے بڑے کام کرنا ممکن نہ ہو ، بلکہ جس قدر وہ سبب موجود ہو، اسی بقدر کام کیا جاسکتا ہو ، اور یہ سبب ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے ، جس کے پاس یہ سبب جس قدر ہوگا، اسی کے بقدر وہ کام کرسکے گا۔

سبب قوی :۔ اس کے مقابلے میں سبب قوی وہ ہے جو زیادہ کام کرسکے ،یا جس کے ذریعے انسان ناممکنات کو بھی کر گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، یہ صفت اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو برابر دی ہے ، بس اس سبب کو اختیار کرنے کی بات ہے جو جس قدر استعمال کرے گا، اس قدر اس سے فائدہ اٹھا پائے گا ، سبب ضعیف جسے ہم سبب سمجھتے ہیں ،وہ ہر چیز میں مختلف ہوسکتا ہے ،کسی میں سبب مال ہوگا ، کسی میں سبب قوت ہوگی تو کسی میں کوئی چیز کار فرما ہوگی ،اس لیے اسباب ضعیفہ سب چیزوں میں مختلف ہوسکتے ہیں ، لیکن اسباب قویہ سب کے لیے برابر ہیں، اس کے ذریعے وہ کام ہوئے جو اسباب ضعیفہ کے ذریعے نہیں ہوسکتے، اور اس کے ذریعے اتنے بڑے کام ہوئے ہیں جن کا انسان اسباب ضعیفہ کے درجے میں تصور بھی نہیں کرسکتا ، اور وہ سبب دعا ہے کہ اس کے ذریعے پوری دنیا میں طوفان بھی آیا ، یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں محفوظ رہے ، یہی دعا ہے جس کے ذریعے حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہوئی ، یہی دعا ہے جس نے آل عمران کو نیک بخت بنایا ، یہی دعا ہے جس کے ذریعے سورج واپس لوٹایا گیا ،اسی دعا کے ذریعے بہت سارے مسائل کو حل کروایا گیا۔

غرض اسباب قویہ میں سے قوی ترین سبب دعا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نا ممکن کاموں کو پورا کردیتے ہیں ، اور یہ سبب ایسا ہے جو ہر چھوڑے بڑے ، بچے بوڑھے ، مرد و عورت سب کے پاس یکساں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی سے رشتے داری ہو، اس کی زیادہ سنتے ہوں اور کچھ سے رشتے داری نہیں، ان کی نہیں سنتے ، ایسا بالکل نہیں ، بس مانگنے کی دیر ہے ، اللہ کی ذات ایسی ہے جو نہ مانگنے پر ناراض ہوتا ہے۔ مانگنے کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا۔

دنیا میں جو بھی مخلوق ہے ان سے اگر بار بار مانگا جائے تو انہیں غصہ آتا ہے ، ابتدا میں جذبہ سے دیں گے ، پھر شفقت کرتے ہوئے دیں گے ، پھر بوجھ سے دیں گے، پھر نصیحت کرتے ہوئے دیں، پھر نصیحت کرتے ہوئے نہیں دیں گے ، پھر اس کے بعد ناراضی کا اظہار کریں گے، پھر اس پر بھی اگر بس نہ ہو تو بدنام کریں گے ،لیکن دیں گے نہیں، کیونکہ انسان مانگنے پر ناراض ہوتا ہے اور اللہ مانگنے پر خوش ہوتے ہیں۔

اللہ دیتے سب کو ہیں ، بس انسان میں خود لگن ہو تڑپ ہو اور یقین ہو ، جو اللہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کے باوجود بچا سکتے ہیں ، موسیٰ علیہ السلام کو دشمن کے گھر میں پال سکتے ہیں ، ان کے لیے چلتے پانی کو روک کر سمندر عبور کروا سکتے ہیں ، یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھ سکتے ہیں، اصحاب کہف کو ۳۰۹ سال تک سلا سکتے ہیں ، عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر بلا سکتے ہیں ،وہ سب کچھ کرسکتے ہیں ان کی طاقت وقوت میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا ،بس ہمارے مانگنے میں مسئلہ ہے، جو اللہ انہیں دے سکتے ہیں ،وہ ہمیں بھی دے سکتے ہیں ان کے الطاف میں کوئی فرق نہیں ہے ،بس ہم میں فرق آیا ہے ہم نے خود کو اس قابل نہ بنایا نہ سمجھا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے لے سکیں ،ورنہ وہ تو آج بھی تیار ہیں۔

دعا میں یقین کا بہت بڑا دخل ہے ، جس شخص کے پاس یقین جس قدر مضبوط ہوگا ، اللہ تعالیٰ اس کا کام اسی قدر کروائیں گے ، چاہے وہ مانگنے والا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، چاہے وہ اسے کوئی بھی نام دیتا ہو، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتے ہیں ، وہ کسی کی بات رد نہیں کرتے ، بعض روایات میں تو صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :’’مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میں اپنے بندے کے ہاتھوں کو خالی واپس بھیجوں‘‘۔

ایک روایت میں تو یہ بھی موجود ہے کہ: ’’میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں ، میں اس کے ساتھ ہوں ‘‘۔ اب اگر انسان نے خود گمان کیا ہو کہ میں جب تک اس بت کے سامنے سجدہ نہیں کروں گا میرا کام نہیں ہوگا ، اللہ بھی اس کا کام نہیں کرواتے ہیں، کیونکہ خود اس نے یہ سوچا ہے تو اللہ اس کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہی معاملہ فرماتے ہیں، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم جو کہتے ہیں اس کے الٹ ہی ہوتا ہے، وہ درحقیقت اپنی فکری صلاحیتوں کو جانتے نہیں، انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کی کس قدر لاج رکھتے ہیں ، کیونکہ ان کے خیال میں ان کی ہر کہی ہوئی بات الٹ جاتی ہے ،وہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ ان کی ہر کہی ہوئی بات سیدھی ہوتی ہے ، اگر الٹ ہوتی تو یوں ہوتی کہ وہ کام ہوجاتا کیونکہ اس کا خیال تو یہ ہے کہ جو کہتا ہوں اس کے الٹ ہوتا ہے، اگر اس کے برعکس سیدھا ہوجائے تو اس کا خیال غلط ہوا جو اللہ کرتے نہیں ہیں ، اس لیے اللہ اس کی سوچ کی لاج رکھتے ہوئے ویسا ہی کرتے ہیں ،جو اس نے سوچا ہے کہ الٹا ہوتا ہے۔

اس لیے خود کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے طاقت وقوت کیا دی ہے ، کس قدر اللہ تعالیٰ ہم پر مہربان ہیں ، وہ ہماری ہر دعا کو قبول کرتے ہیں، اگر ہم اللہ کے بارے میں اچھا گمان کریں گے تو وہ ہمارے ساتھ معاملہ بھی اسی طرح کا فرمائیں گے ، ہمارے مسائل کو حل کریں گے ، اور زندگی کی وہ خوشیاں جو ہم ویسے ہی حاصل نہیں کرسکتے ،ان دعاؤں کے ذریعے حاصل کرسکیں گے، اس لیے کہ احادیث مبارکہ میں اس حوالے سے بہت سی وضاحتیں موجود ہیں ، جس سے دعا کی اہمیت وفضیلت کا علم ہوتا ہے ، ذیل میں چند روایتوں کو ذکر کیا جاتا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ایک روایت میں فرمایا : ’’ دعا عبادت کا مغز ہے ‘‘۔ ارشاد فرمایا : ’’ دعا اصل عبادت ہے ‘‘۔ان دونوں روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اصل عبادت تو گویا دعا ہے ، دعا کو اصل عبادت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عبادت میں مقصود عاجزی ہے ، اسی طرح دعا میں مقصود عاجزی ہے ، عبادات میں ریا کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے ، جب کہ دعا میں ریا کاری کا اندیشہ کم سے کم ہوتا ہے۔

جو اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ کو غصہ آتا ہے اور مخلوق سے جب مانگا جاتا ہے تو وہ غصہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ نے دعا نہ مانگنے والوں کو متکبر قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو تکبر کرتے ہیں، وہ جہنم میں داخل ہوں گے ، اور اس آیت میں فرمایا ہے کہ جو لوگ میری عبادت میں تکبر کرتے ہیں، وہ جہنم میں داخل ہوں گے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس جگہ عبادت سے مراد دعا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا سے زیادہ کوئی چیز بڑی نہیں ہے۔(ترمذی ) دعا نازل شدہ مصیبتوں سے بھی نجات دیتی ہے اور آنے والی مصیبتوں کو بھی ٹالتی ہے۔(سنن الترمذی )اگر کوئی چیز تقدیر کو ٹال سکتی تو وہ دعا ہوتی ۔(مستدرک حاکم ) بعض حضرات نے تو اس روایت سے یہ تک استدلال کیا ہے کہ تقدیر کو دعا بدل سکتی ہے ،لیکن دیگر علماء فرماتے ہیں کہ تقدیر کو اگر کوئی چیز بدل سکتی تو وہ دعا ہوتی ، لیکن چونکہ تقدیر کو کوئی چیز بدل نہیں سکتی ،اس لیے دعا بھی نہیں بدل سکتی۔ دعا اتنی اہم چیز ہے جسے تقدیر کے بدلنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔

جسے دعا کی توفیق دے دی گئی اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے ۔(ترمذی ) دعا تمام خیروں کا دروازہ ہے، اس دعا میں عاجزی ہے جو اللہ کو پسند ہے ، اللہ تعالیٰ کو غرور وتکبر کرنے والے ہر گز پسند نہیں ہیں ، کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ اپنے زور وطاقت کو ہٹا دو اور عاجزی کو لازم پکڑو، اس لیے کہ رحمت عاجزی کی طرف چل کرآتی ہے۔

بہترین ذکر لا الہٰ الا اللہ ہے اور بہترین دعا الحمدللہ ہے ۔ یعنی بہترین دعا وہ ہے جو یقین سے مانگی جائے کہ انسان دعا مانگتے ہوئے گویا یہ تصور کررہا ہے کہ میری دعا قبول ہوگئی اور اس پر خوش ہوکر وہ الحمد للہ کہہ رہا ہے، یعنی اس یقین سے کہ گویا ابھی زبان سے الفاظ نکالے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا ہے، ظاہر سی بات ہے جب اس تصور کے ساتھ دعا مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے اصول کے مطابق قبول تو ضرور عطا فرمائیں گے، اس لیے جب بھی دعا مانگیں تو اس بات کا خیال لازمی ہے کہ اللہ ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرماتے ہیں، اس کام کے کرنے پر قادر بھی ہیں اور جو کچھ ہم سوچتے ہیں اللہ کے بارے میں اللہ ہمارے ساتھ اسی کے اعتبار سے معاملہ بھی فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعا کی قوت و طاقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں اسی کے بقدر دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اپنی ضروریات اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔(آمین)