نسلِ نو میں ’’سماجی شعور‘‘ کا فقدان کیوں ؟

November 19, 2022

قدسیہ ملک

پاکستان کی 64 فی صد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی میں سے ایک ہے، اگر ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائیں تو یہ پاکستان کے لیے سب سے بڑے منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے روزگار کے مواقع کی کمی، سماجی مصروفیات کا فقدان، تعلیم اور صحت کی غیر مساوی سہولیات، سماجی ناانصافیوں، فرسودہ روایات اور معاشرے کا خارجی رویوں نے نوجوانوں کو بدِل کردیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور باعزت ذریعہ معاش تلاش کرنے کے خواب اور خواہشات ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس لیے نوجوان مایوسی کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ، انہیں اپنا مستقبل تابناک نظر نہیں آرہا۔

یو این ڈی پی کی رپورٹ 2021 کے مطابق پاکستان میں 29 فی صد نوجوان ناخواندہ ہیں، جبکہ صرف چھ فیصد کے پاس اعلٰی تعلیم ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 40 لاکھ نوجوان کام کرنے کی عمر کی آبادی میں داخل ہوتے ہیں اور ہر سال صرف 39 فیصد کو ملازمت ملتی ہے۔ سب سے تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ملک کے تقریباً نصف نوجوان تعلیم، روزگار یا تربیت سے محروم ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادکسی انسٹیٹوٹ کے بغیرہنر سیکھتی ہے، نتیجتاً، انہیں مناسب مہارت اور سند نہیں ملتی۔

نوجوانوں کے اس طبقے کو قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں ہنر مند کارکنوں کے طور پر روزگار بھی نہیں ملتا، اور ان کے حقوق کا کوئی قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔ ILO کا اندازہ ہے کہ رواں سال کے اختتام تک بےروزگاری کی شرح 9.56 فیصدہو جاے گی ۔ لیبر فورس کی شرکت کی شرح کو بہتر بنانے کے لیے، اگلے پانچ سالوں کے لیے ہر سال اضافی 1.3 ملین ملازمتیں پیدا کی جانی چاہئیں۔ ہم سماجی بے چینی، تیز رفتار اقتصادی، سماجی، موسمی اور تباہ کن تبدیلیوں اور انفرادیت اور شناخت کے بحران کے شدید ترین دور میں جی رہے ہیں۔

شدید تفاوت اور خراب سیاسی اور سماجی اقتصادی حالات نے مایوس اور محروم نوجوان افراد کو پرتشدد اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی بڑے پیمانے پر افراد، خاندانوں اور معاشروں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔202۲ے لیے پاکستان کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 0.557 ہے، جس نے ملک کو درمیانے درجے کی انسانی ترقی کے زمرے میں ڈالا، اور اسے 189 ممالک اور خطوں میں سے 154 نمبر پر رکھا۔ تعلیمی انڈیکس میں علاقائی موازنہ کے تناظر میں صرف افغانستان پاکستان سے پیچھے ہے۔

اگر آج معاشرے میں نوجوانوں کےمستقبل کے لیے صحیح حکمت عملی اور پالیسیاں وضع نہیں کی گئیں، تو ہمارے پاس موجود سب سے بڑی افرادی قوت پسماندہ، عدم برداشت، سماجی برائیوں کا شکار ہو جائے گی۔ کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اسی لیے معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے نوجوانوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیاری تعلیم کی ضمانت دے، پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت فراہم کرے، کام کے معقول مواقع فراہم کرے اور نوجوانوں کی صحت اور دیگر چیلنجز سے نمٹا جائے۔ ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کا معاشی ترقی، سیاسی استحکام ،سماجی اور پائیدار ترقی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

حکومت کو شفافیت کے ساتھ مجموعی طور پر تعلیم، روزگار کے مواقع اور نوجوانوں کی ترقی کی پالیسیوں کو بہتر بنانا چاہیے، جن کی کمی ملک کی تعمیر وترقی میں رکاوٹ ہے۔ حکومت کو اسٹارٹ اپ کاروبار کے فروغ، نوجوان کاروباریوں اور ملازمین کے لیے ٹیکس چھوٹ، ملکی اور بین الاقوامی سیاحت کے فروغ اور کھیلوں کے ذریعے وسائل کی پیداوار پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این پی ایف) کے مطابق ، پاکستان کی آبادی اس وقت غیر پائیدار شرح (2.4 فیصد سالانہ اوسط) سے بڑھ رہی ہے۔

توقع ہے کہ اگلی چار دہائیوں میں تقریباً 2.1 ملین نوجوان پاکستان میں لیبر فورس میں داخل ہوں گے۔ معیاری تعلیم، روزگار، سماجی مشغولیت اور سیاسی بااختیار بنانے کے ذریعے نوجوانوں کی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے اس بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ نوجوانوں کو ان کی مایوسی اور کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنا زیادہ اہم ہے جو بالآخر بنیاد پرستی اور پرتشدد انتہا پسندی میں حصہ لینے کے مواقع کم کرسکتاہے۔

اگر معاشرے میں تفاوت اور محرومیوں کا احساس برقرار رہے تو یہ سماجی بدامنی کا باعث بن سکتا اور بالآخر بڑے پیمانے پر قومی سلامتی کو متاثر کر سکتا ہے۔ تشدد، بدعنوانی اور جبر سے نمٹنے کےلئےملک کے استحکام کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے مختلف حصوں میں فنی تربیتی مراکز قائم کرے ،تاکہ ہنرمند افرادی قوت پیدا کی جا سکے، تاکہ قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہنر مند لیبر کی مانگ کو پورا کیا جا سکے۔ اس دور کی تکنیکی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے، آن لائن کاروبار کے میدان میں نوجوانوں کی کاروباری سرگرمیوں پر توجہ دی جاے۔ جب تک کہ لوگوں کو صحت، تعلیم اور معاش تک مساوی رسائی نہیں دی جاتی،ان کے احساس محرومی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔