پاکستان میں مسلسل آگہی مُہم کے باوجود ایڈز کا پھیلاؤ لمحہ فکریہ ہے

November 27, 2022

بات چیت: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ

عالمی ادارۂ صحت اور یونائیٹڈ نیشنز جوائنٹ پروگرام آن ایڈز (UNAIDS:United Nations Joint Programme On Aids)کے اشتراک سے ہر سال یکم دسمبر کو ’’ایڈز کے انسداد کاعالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے،جس کا مقصد نہ صرف اس مُوذی مرض سے متعلق درست معلومات عام کرنا ہے، بلکہ مرض پر کنٹرول اور اس کے مکمل خاتمے کے لیے نئے سرے سے حکمتِ عملی تشکیل دینا بھی ہے۔ ہر سال اس دِن کے لیے مختلف تھیمز یاسلوگنز مقرر کیے جاتے ہیں اور امسال کا سلوگن "Equalize" ہے۔

پاکستان میں ایڈز کے مرض میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کا اقرار رواں برس وفاقی حکومت نے بھی کی،جب کہ نیشنل ہیلتھ سروسز کے مطابق ایشیائی مُمالک کی نسبت پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجوہ میں تشخیص اور علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان، استعمال شدہ سرنجز کا زائد بار استعمال اور غیر تشخیص شدہ خون کی منتقلی وغیرہ شامل ہیں۔ این ایچ ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایڈز کی روک تھام کے ضمن میں حکومت استعمال شدہ سرنجز کے دوبارہ استمعال پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے سخت قوانین تشکیل دے رہی ہے۔

جب کہ اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دُنیا کے خطرناک ترین ایڈز سے متاثرہ گیارہ مُمالک میں کیا جارہاہے۔ یاد رہے، اس وقت پوری دُنیا میں 38.4ملین (تین کروڑ 80 لاکھ) افراد ایڈز میں مبتلا ہیں اور نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے جون2022ء تک کے دست یاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بَھر میں 53713 افراد اس وائرس سے متاثر ہیں، جن میں سے 33007مریضوں کا علاج جاری ہے۔ عالمی سطح پر یہ وائرس ماضی کی نسبت قدرے کنٹرول میں ہے، مگر پاکستان میں آگہی مُہم کے باوجود اس کا پھیلائو لمحہ فکریہ ہے۔

حالاں کہ پاکستان میں 17سال قبل ہر صوبے میں’’ایڈز ٹریٹمنٹ سینٹر‘‘کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ سینٹرز صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام اور مختلف انٹرنیشنل ڈونرز، ہیلتھ ایجنسیز کے مالی اور تیکنیکی تعاون سے فعال ہونے کے ساتھ ہیں اور مفت طبّی سہولتیں بھی فراہم کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی پہلا خصوصی ایچ آئی وی(ایڈز) ٹریٹ منٹ سینٹر 2005ء میں بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال میں قائم کیا گیا، جس کے سربراہ، ڈاکٹر خدا داد خان عثمانی ہیں، لہٰذا ایڈز کے عالمی یوم کی مناسبت سے ہم نے ڈاکٹر خدادا خان عثمانی سے خصوصی بات چیت کی۔

ڈاکٹرخداداد خان عثمانی کا تعلق سبّی کے قدیمی گائوں، کڑک کے قبیلے عثمانی (پنی) سے ہے۔ انہوں نے 1992ء میں بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور اپنے کیرئیر کا آغاز 1996ء میں سنڈیمن پراوینشل اسپتال، کوئٹہ سے بطور جونیئر میڈیکل آفیسر کیا۔ بعدازاں، شعبۂ میڈیسن سے بطور رجسٹرار منسلک ہوگئے، جب کہ بلوچستان میڈیکل کمپلیکس اسپتال، کوئٹہ کے شعبۂ معدہ و آنت میں بھی بطور رجسٹرار خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ 2005ء میں جب اسی اسپتال میں ایڈز ٹریٹ منٹ سینٹر قائم ہوا، تو انہیں اس سینٹر کے سربراہ کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ نیز، انہوں نے تھائی لینڈ سے بھی ایڈز کے علاج معالجے کی تربیت حاصل کی۔ اُن سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے…… (عکاسی:رابرٹ جیمس)

س: عام افراد کے سمجھنے کے لیے بتائیں کہ ایچ آئی وی ایڈز کیا ہے؟

ج: ایڈز کا سبب بننے والے وائرس کو طبّی اصطلاح میں ہیومن امینوڈیفی شینسی وائرس (HIV:Human Immunodeficiency Virus)کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس سب سے پہلے جسم کے دفاعی نظام پر حملہ کرکے اُسے ناکارہ کرتا ہے، نتیجتاً انسان کی قوّتِ مدافعت متاثر ہوجاتی ہے، لیکن ایچ آئی وی سے متاثرہ زیادہ تر مریضوں میں چوں کہ کئی برسوں تک کوئی واضح علامات ظاہر نہیں ہوتیں، تو وہ خود کو صحت مند ہی محسوس کرتے ہیں، حالاں کہ یہ وائرس اگر ایک بار جسم میں داخل ہوجائے تو پھر آخری سانس تک ساتھ رہتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ تاحال اس مرض کا کوئی علاج موجود نہیں، ہاں بعض ادویہ کا تاحیات استعمال قسرے بہتر زندگی جینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے، اس وائرس سے متاثرہ افراد کے ادویہ استعمال کرنے سے دیگر افراد میں وائرس کی منتقلی کے امکانات کم ہوسکتے ہیں۔

س: ایڈز کے محرّکات پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

ج: یاد رکھیں، اس مرض کے پھیلاؤ کی وجہ صرف جنسی بےراہ روی نہیں، بلکہ کئی اور بھی محرّکات ہیں۔ اکثر نشے کی علّت میں مبتلا افراد گروپ کی شکل میں ایک سرنج سے نشہ کرتے ہیں، نتیجتاً نہ صرف خودایڈز، ہیپاٹائٹس سی جیسےخطرناک ا مراض کا شکار ہوجاتے ہیں، بلکہ صحت مند افراد میں بھی بیماری منتقل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

دراصل ان افراد میں سے کسی ایک میں بھی اگر ایڈز یا کسی اور مرض کا وائرس موجود ہو، تو پھر وہ اُس مرض کو تمام افراد تک منتقل کردیتا ہے۔اس کے علاوہ استعمال شدہ سرنجز اور کسی سرجری یا ڈائی لیسسز کے دوران غیر مطہر آلاتِ جرّاحی کا استعمال بھی مرض کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے،جس کی ایک بھیانک مثال 2019ء میں لاڑکانہ کے شہر رتوڈیرو سے سامنے آئی، جس میں سیکڑوں افراد، بشمول بچّے ایڈز سے متاثر ہوئے اور اُن میں سے بیش تر میں یہ مرض استعمال شدہ سرنجز سے منتقل ہوا۔

ایڈز کا وائرس، غیر تشخیص شدہ خون کی منتقلی(Unscreened Blood Transfusion)، جِلد پر ٹیٹوز بنوانے یا ناک، کان چِھدوانےکے دوران ایسی سوئی یا اوزار کے استعمال، جو جراثیم سے پاک نہ ہو ،مریض کے زیرِ استعمال نیل کٹر،ریزر اور حجام کی دکان میں استعمال ہونے والے آلات کے ذریعے بھی (جنہیں اچھی طرح صاف نہ کیا گیا ہو) متاثرہ فرد سےدوسرے میں باآسانی منتقل ہوسکتا ہے۔

س: ایڈز کی علامات کیا ہیں ؟

ج: انسانی جسم میں ایڈز کا وائرس کئی مہینوں یا برسوں تک علامات ظاہر کیے بغیر رہ سکتا ہے۔ تاہم، کسی بھی فرد میں ایڈز کی اینٹی باڈیز اس وائرس سے متاثر ہونے کے چھے ہفتے یا اس سے زائد عرصے میں بنتی ہیں۔ اگرچہ جسم میں ایڈز کے جراثیم کی جانچ کے لیے اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، لیکن افسوس کہ یہ اینٹی باڈیز مرض سے تحفّظ فراہم نہیں کرتیں۔

اگر ایڈز کا وائرس کسی کے جسم میں داخل ہوجائے، تو وہ دوسرے صحت مند فرد تک منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور وائرس کی منتقلی کی یہ صلاحیت بیماری کے ابتدائی اور آخری مرحلےمیں بہت زیادہ ہے۔ ویسے تو اس بیماری کی ابتدائی علامات فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتیں، تاہم عمومی طور پر مریض کا مختصر عرصے میں وزن دس فی صد سے کم ہوجاتا ہے اور ایک مہینے سے زائد عرصے تک اسہال اور بخار کی شکایت رہتی ہے۔

س: ایڈز کی تشخیص اور مروجہ علاج سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: ایڈز کی حتمی تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ پازیٹیو آنے کی صُورت میں فوری طور پر مخصوص ادویہ کا استعمال شروع کروا دیا جاتا ہے، جو اس وائرس کے خلاف کافی مؤثر ثابت ہوتی ہیں اور مریض باقی کی زندگی نسبتاً بہتر طور پر گزار سکتا ہے۔ آج سے دو ڈھائی عشرے قبل ایڈز لاعلاج مرض تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن اب ایسی جدید مؤثر ادویہ موجود ہیں، جو جسم میں موجود وائرس کی افزایش کا عمل سُست کردیتی ہیں۔

زیادہ تر ادویہ گولیوں کی صُورت میں روزانہ کی بنیاد پر تاعُمر استعمال کی جاتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی مریض کو تاعُمر ادویہ کے استعمال پر قائل کرنا بہت مشکل ہے،لہٰذا دورانِ علاج اس بات کا بہت زیادہ احتمال رہتا ہے کہ کہیں مریض کسی بھی وقت ان ادویہ کا استعمال ترک نہ کردے۔ اس ممکنہ مسئلے کے حل کے لیے سینٹر میں بہترین تربیت یافتہ کاؤنسلرز موجود ہیں، جو ہر بار معائنے پر مریض کو علاج کی اہمیت سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً90فی صد سے زائد مریض بلاناغہ ادویہ استعمال کرکے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ادویہ پیچیدگیاں لاحق ہونے کے امکانات بھی کم کردیتی ہیں۔

دراصل علاج کی بدولت جسم میں( خصوصاً خون اور رطوبتوں میں) وائرس کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے، جس کی وجہ سےکسی دوسرے فرد میں منتقلی کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں، لہٰذا ہر سطح تک ایڈز کے علاج سے متعلق شعور و آگہی اُجاگر کرنا ناگزیر ہے، تاکہ متاثرہ افراد اپنا علاج کرواسکیں اور اس بیماری کے پھیلاؤ کی وجہ نہ بنیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب ہم سب اپنے رویّوں میں تبدیلی لائیں۔

فی الوقت تو ہمارے یہاں ایڈز کے مریضوں کو انتہائی نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، حالاں کہ جنسی بےراہ روی کے علاوہ بھی مرض لاحق ہونے کی متعدّد وجوہ ہیں۔ سو، ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ایڈز سے متاثرہ افراد سے نفرت کی بجائے، اُن کے علاج اور سماجی مسائل کے حل میں مددگار بنیں۔

س: ایڈز سے محفوظ کیسے رہا جا سکتا ہے؟

ج: اس مُہلک مرض سے بچاؤ کی واحد صُورت یہی ہے کہ ہر ممکن احتیاط برتی جائے۔ کسی بھی بیماری کی صُورت میں خون لگوانے کی ضرورت پیش آئے تو ہمیشہ تصدیق شدہ خون لگوایا جائے۔ جنسی بےراہ روی، غیر ازدواجی تعلقات تو مذہباً حرام ہی ہیں، نیز، دیگر احتیاطی تدابیر میں نشہ آور اشیاء کے استعمال سے اجتناب، علاج کی غرض سے انجیکشن لگوانے کی صُورت میں بھی نئی سرنج، حجام سے شیو بنواتے ہوئے نئے بلیڈ اورناک، کان چِھدوانے کے لیے گرم پانی سے دُھلے ہوئے اوزار یا سوئی کا استعمال لازم ہے۔

عالمی قوانین کے مطابق ایک مریض کے لیے دورانِ سرجری استعمال ہونے والی کٹ دوبارہ استعمال کرنے سے پہلے 119 تا 130 سینٹی گریڈ تک گرم پانی اور کیمیکل سے دھونا ناگزیر ہے۔ اسی طرح کسی بھی جرّاحی کے عمل سے پہلے ایڈز، ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ لازماً کروائے جائیں۔ بلڈ بینکس میں ایچ آئی وی ٹیسٹ بہت ضروری ہے، کیوں کہ ہمارے اکثر بلڈ بینکس عالمی معیار کے نہیں۔ واضح رہے، غیر مستند اور غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکس کے باعث بھی ایچ آئی وی پھیل رہا ہے اور یہ وائرس اُن بچّوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے، جنہیں مستقل بنیادوں پر خون کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس ضمن میں اگر ہم صرف غیر تصدیق شدہ خون، سرنجز اور ڈرپس کےغیر ضروری اور دوبارہ استعمال پر پابندی سے متعلق مؤثر اقدامات ہی کرلیں، تو مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر بہت حد تک قابو پاسکتے ہیں ۔ ایڈزکے مریض پابندی سے ادویہ استعمال کریں اور معالج سے مستقل رابطے میں رہیں، تاکہ کسی بھی قسم کی پیچیدگی پیدا ہونے سے قبل ہی اُس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔ پھر متاثرہ افراد کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ کچھ معاشرتی رویّے بھی ہیں، جنہیں تبدیل کرنا ازحد ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آگاہی مُہم اور علاج معالجے کے مراکز کے باوجود آج بھی معاشرے میں مرض سے متعلق پائے جانے والے منفی تصوّرات کی وجہ سے متاثرہ افراد اپنا مرض چُھپانے پر مجبور ہیں۔

س: کوئٹہ میں قائم ایڈز ٹریٹمنٹ سینٹر سے متعلق بھی تفصیلاً بتائیں؟

ج:مسئلہ یہ ہے کہ معاشرتی رویّوں کے باعث ایڈز سے متاثرہ زیادہ تر افراد اپنا مرض چُھپاتے ہیں اور یہی پردہ پوشی ایڈز کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ اسی لیے مُلک بَھر میں تقریباً 45 ایڈز ٹریٹ منٹ سینٹرز قائم کیےگئے ہیں۔بلوچستان میں 2005ء میں بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال، کوئٹہ میں اس سینٹر کا قیام عمل میں آیا اور یہ گزشتہ 17برس سے تشخیصی ٹیسٹس، علاج معالجے کی سہولتیں مفت فراہم کررہا ہے۔ یہ بلوچستان کا غالباً پہلا اور اپنی نوعیت کا منفرد سینٹر ہے، جو اپنے قیام سے لے کر تاحال کسی بھی ہنگامی صُورتِ حال یا ہڑتال وغیرہ کے سبب بند نہیں ہوا۔

ابتدا میں سینٹر کا عملہ ایک ڈاکٹر، کاؤنسلر اورا سٹاف نرس پر مشتمل تھا، جنہوں نے ایڈز کی تشخیص، علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال سے متعلق تھائی لینڈ سے تربیت حاصل کی۔ اب سینٹر میں تقریباً 12سو کے لگ بھگ پازیٹو افراد رجسٹر ہیں، جن میں بلوچستان اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ افغان مہاجرین بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں ایڈز کے پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی مقامی افراد کاروبار اور ملازمت وغیرہ کی غرض سے خلیجی ریاستوں میں مقیم ہیں۔

چوں کہ خلیجی ریاستوں میں منشیات کا استعمال عام ہے اور ایڈز کا وائرس بھی پایاجاتا ہے، تو اس وجہ سے بھی بعض مقامی افراداس وائرس کی زد میں آجاتے ہیں۔ بہرحال، اس سینٹر میں مریضوں کو بلاتفریق علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں مفت مہیا کی جاتی ہیں، جب کہ ایڈز سے متعلقہ چند مخصوص اور وائرل لوڈ ایچ آئی وی(Viral Load HIV) ٹیسٹس بھی فوری اور مفت کیے جاتے ہیں۔ تاہم، بعض ٹیسٹس آغا خان لیبارٹری سے کروانے پڑتے ہیں اور وہ بھی ہم مفت کرواتے ہیں۔ نیز، چند برس قبل تربت شہر میں بھی ایک سینٹر فعال کیاگیا تھا۔

س: بلوچستان کے دیگر شہروں میں بھی ایڈز کے علاج اور روک تھام سے متعلق سینٹرز بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اس حوالے سے کوئی تجویز دینا چاہیں گے؟

ج: کوئٹہ اور تربت میں علاج کے دو مراکز قائم ہیں، جب کہ لورالائی، ڈیرہ مراد جمالی اور حب سمیت دیگر اضلاع میں مزید چھے مراکز قائم کیےجارہے ہیں۔ اس کے علاوہ 28اضلاع میں اسکریننگ سینٹر قائم کیے گئے ہیں، جو ایک اچھا اقدام ہے، اس حوالے سے خاص طور پر ژوب، قلعہ سیف اللہ، نصیر آباد ،گڈانی اور لسبیلہ ہائی رسک ایریاز ہیں، تو اس ضمن میں بطور سینئر معالج مَیں یہی تجویز دوں گا کہ تمام مراکز میں فُل ٹائم تربیت یافتہ اسٹاف تعینات کیا جائے اور وہاں ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ ہر مریض پوری راز داری کے ساتھ اپنا علاج کرواسکے۔