پاک ترک توانائی شراکت

November 27, 2022

توانائی بحران کے باعث مسائل کا شکار پاکستان اس شعبے میں درپیش مشکلات دور کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہے اور اس کے لئے ہر اس دروازے پر دستک دینے اور دست تعاون تھامنے کو تیار ہے جہاں سے اسے توانائی بحران سے نکلنے کے لئے مدد ملنے کی امید ہو۔چین کے ساتھ سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کا اولین مقصد ہی پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے چین کی مدد سے نئے منصوبے شروع کرنا تھا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اسی لئے ترکیہ کے دورے میں میزبان ملک کے سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے ملگیم کارویٹ جہاز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان توانائی کے لئے درکار پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بہت زیادہ زرمبادلہ صرف کرتا ہے لہٰذا وہ ترکیہ کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیںمل کر زیادہ کاربن کے اخراج سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے درآمدی بلوں کو ختم کریں اور قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال جولائی تا اکتوبر پاکستان کی تیل کی کل درآمدات 6.05 ارب ڈالر رہیں جس میں بجلی پیدا کرنے کے لیے فرنس آئل بھی شامل ہے۔ یہ درآمدی بل ایسے وقت میں بڑھا جب درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ تیل کے درآمدی بل کی وجہ سے حکومتی خزانے پر شدید دباؤ ہے۔ ایسے میں دونوں ملکوں کے درمیان شمسی، ہائیڈل اور ونڈ انرجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا مثبت نتائج کا حامل ہوگا۔ قابل تجدید توانائی میں منتقلی کا یہ قدم تجارتی تعلقات کو دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی شراکت داری میں تبدیل کرسکتا ہے۔ پاک بحریہ کیلئے پہلے کارویٹ پی این ایس بابر کی لانچنگ اور دوسرے جہاز پی این ایس بدر کا منصوبہ تزویراتی شراکت میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔