ریلوے کا خسارہ

November 27, 2022

پاکستان ریلوے ملک کا تیسرا بڑا ادارہ اور قومی اثاثہ ہے۔ قیام پاکستان سےقبل اس خطے میں ریلوے کا وسیع نیٹ ورک تھا جو نارتھ ویسٹرن ریلوے کے نام سے جانا جاتا تھا، 1974ء میں پاکستان ریلویز میں تبدیل کر دیا گیا۔ ریلوے نہ صرف آمدو رفت کا سستا ، تیز رفتار ، آرام دہ سفر بلکہ مال برداری کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسے جدید خطوط پر استوار کیا جاتا مگر بد قسمتی سے ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ یہ ملکی معیشت پر بھاری بوجھ بن گیا۔ آج یہ حالت ہے کہ آمدن کے مقابلے میں اس کے اخراجات دگنے ہو گئے ہیں۔ ناقص گورننس ، سیاسی مداخلت ، بدعنوانی ، ناقص انفراسٹرکچر ، مال بردار ٹرینوں کو چلانے کی محدود صلاحیت اس کی وجوہات قرار دی جاسکتی ہیں۔ ٹرک مافیا نے بھی پاکستان ریلوے کی مالی حالت کو نقصان پہنچایا۔ بھاری پنشن واجبات بھی خسارے میں اضافے کا باعث بنے۔ وزارت ریلوے کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے تحریری جواب میں انکشاف ہوا ہے کہ اپریل اور اکتوبر کے دوران ریلوے خسارہ 35 ارب 31 کروڑ روپے رہا ۔آمدن 33ارب اور اخراجات 69 ارب روپے سے زیادہ رہے جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار پنشنرز کو سالانہ 75 ارب روپے سے زیادہ دیئے جارہے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک فرانزک رپورٹ کے مطابق 2011ء سے 2020ء تک ریلوے کو مجموعی طور پر 333 ارب 81 کروڑ 20 لاکھ روپے کا خسارہ ہوا۔ تحریک انصاف کا دور خسارے کے لحاظ سے بدترین ثابت ہوا سالانہ خسارہ بڑھ کر 41ارب 46کروڑ تک پہنچا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا دور خسارے کے لحاظ سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہا۔ ان 10 سال میں ریلوے خسارہ پورا کرنے کیلئے قومی خزانہ سے 560 ارب 82 کروڑ روپے امداد کی ’’بیساکھیاں‘‘ لگانا پڑیں۔ ان چشم کشا حقائق سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998