دیکھتے جائیں، شرماتے جائیں

November 27, 2022

جس وقت یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان تیزی سے دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے، قطر میں فٹ بال کا عالمی کپ جاری ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا، پرویز مشرف کے سوا ہر دور میں چند ارب ڈالر کی خاطر خود کو آئی ایم ایف کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے دیکھا۔قطر گیس پیدا کرنے والادنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ قطری خط کی طرح قطری گیس بھی پاکستانیوں میں نزاع کا باعث بنتی رہی ہے۔ مہنگی گیس خریدنے کے معاملے پر تحریکِ انصاف اور نون لیگ جوتم بیزار ہوتی رہیں۔ خیر، سی پیک کے معاہدوں سمیت، ہمارے لئے یہ تو ایک معمول ہے کہ جہاں سے کچھ آمدنی کی امید ہو،باوقار انداز میں معاملات طے کرنے کی بجائے سرمایہ کار کے سامنے لوٹنیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ان کو جتنا دباؤ دبتے چلے جائیں گے۔ ریکوڈک کے ذخائر،رینٹل پاور پروجیکٹس، تیل و گیس کی خریداری، بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر عمل اور پاکستانی محنت کشوں کی فراہمی تک، پیسے کی چمک یا غیر ملکیوں سے مرعوبیت کی بنا پر معاملات ہمیشہ بگاڑ دیے جاتے ہیں۔ سی پیک شروع ہونے کو تھا، جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی نے جب ایک نجی ملاقات میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔اپنے وسائل کا سودا کرنا ہم جانتے ہی نہیں، ہاتھ کیا آئے؟ تیل کی پیداوار اور ذخائر کے حساب سے قطر کا نمبر پندرھواں ہے۔ آبادی محض تیس لاکھ یعنی شہر لاہور کا چوتھا حصہ۔ آمدنی کے حساب سے یہ دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے، فی کس 83ہزار ارب ڈالر۔ بھارت کا نمبر139واں ہے۔ پاکستان کا 155واں یعنی فی کس ڈیڑھ ہزار ڈالر۔ یہ وہ ملک ہے،ایک صدی جو بیٹھ کر کھاتا رہے تو ختم نہ ہو۔ اصولاً ہماری بجائے انہیں ہڈحرام ہونا چاہئے تھا۔یہ مگر وہ لوگ ہیں، جوجانتے ہیں کہ کھربوں ڈالر ذخائر کے باوجود فاسل فیولز کا زمانہ ختم ہونے والا ہے۔ متحدہ عرب امارات سمیت کئی عرب ممالک یہودیوں کو اپنا کزن قرار دیتے ہوئے ایک اور انتہا کی جانب بڑھ گئے۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ انہوں نے بے تحاشا محنت کی۔آپ دبئی کو دیکھ لیں۔ انہوں نے محض اپنے قدرتی وسائل کی فراوانی پہ تکیہ نہیں کیا۔ ایسا انفراسٹرکچر بنایا کہ ساری دنیا سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔جتنا تیل اور گیس قطر کے پاس ہے، اس کا اگر ایک فیصد پاکستان میں نکل آئے تو اگلے ایک ہزار سال تک ہم منورنجن میں مصروف رہیں۔ پاکستان اسٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کئی قومی کارپوریشنیں دہائیوں سے پیسے نگلنے والا کنواں بن چکیں۔ کوئی بات تو کرے ذرا انہیں فروخت کرنے کی۔ وہ سیاستدان جو اپنی شوگر مل میں چھ ماہ کا خسارا برداشت نہیں کرتے، دہائیوں سے ان کی نجکاری کے خلاف آہنی دیوار بن کے کھڑے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری یاد آتے ہیں۔ اپنی طرف سے کس شجاعت کا انہوں نے مظاہرہ کیا تھا، جب جنرل پرویز مشرف کو اسٹیل مل کی نجکاری سے روک ڈالا۔ اس ملک کا حال یہ ہے کہ کسی طاقتور پوزیشن پر نئے افسر کو مقرر کرنا ہو تو سات سمندر پار تک لابنگ شروع ہوجاتی ہے۔ہمارے داخلی معاملات میں اکثرممالک معاہدے اور خط لہراتے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ہمارا ملک ایک چراگاہ ہے،پنجابی محاورے کے مطابق جس کے بارے میں کہا جاتاہے: کھنگی جاؤ تے لنگی جاؤ۔ جب اپنی یہ حالتِ زار بیان کی جاتی ہے تو ایک دوسرا شدت پسند طبقہ سامنے آجاتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان تباہ ہونے کے لئے تخلیق ہوا تھا۔ ہم نے کبھی کچھ کیا اور نہ کچھ کرپائیں گے۔ یہی نہیں، پوری امت ِ مسلمہ نے کبھی کچھ کیا اور نہ کبھی کچھ کر سکے گی؛چنانچہ دو ارب مسلمانوں کو مر جانا چاہئے۔آپ ان کے سامنے ”امتِ مسلمہ“ کی اصطلاح تو استعمال کرکے دیکھیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ 75برس میں کچھ نہیں ہو سکا تو آئندہ بھی نہ ہو گا۔ امریکہ تخلیق ہوئے ایک صدی ہونے کو آئی تھی، جب شمال اور جنوب میں خون ریز خانہ جنگی میں لاکھوں افراد قتل ہوگئے۔ ابراہام لنکن ایسا صدر اسے نصیب نہ ہوتا تووہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتے۔ ابراہام لنکن خود وہ شخص تھا، جو اپنی پوری زندگی صدموں اور ناکامیوں میں بسر کرتا رہا۔ ساری زندگی دکھ سہنے والا شخص اب اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ مزید شکست و ریخت ممکن ہی نہ تھی۔ باقی تاریخ ہے۔ گھر سے باہر نکلئے تو ہر کہیں بھک منگوں کا راج ہے۔ کوئی انگلیاں مروڑ کر، کوئی معمولی معذوری دکھا کر مانگتا پھر رہا ہے۔ آدھی پاکستانی قوم باقی آدھی سے بھیک مانگ رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہ فیصلے نہیں کر پارہے، جو ڈوبتی ہوئی ناؤ والے کیا کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا ملک نہیں، جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے۔ ڈیفالٹ ہوجانا تو ایک طرف، جنگِ عظیم میں مکمل طور پر برباد ہوجانے والی اقوام بھی ترقی و خوشحالی کی معراج کو پہنچیں۔ سوال تو یہ ہے کہ آغاز کب ہوگا؟ فی الحال تو آپ اہم تقرریوں پر ہونے والے دنگے فساد کو دیکھتے جائیں اور شرماتے جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)