جنگ جیو سکول آف تھاٹ

November 27, 2022

عربوں میں جنگ کے دوران مقابل کو مخاطب کرکے رجزیہ کلمات کہے جاتے تھے، چنانچہ حضرت علیؓ نے ایک غزوہ میں مرحب کو مخاطب کرکے یہ رجزیہ کلام پڑھا:

’’میں وہ ہوں کہ میری ماں نے

میرا نام حیدر رکھا

جنگلوں کے فربہ گردن والے

شیر کی مانند

میں تلوار سے تمہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دوں گا۔‘‘

تاہم یہ ابتدائی سطور آج کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ’’رجزیہ‘‘ کالموں، اداریوں، خبروں اور تجزیوں کے حوالے سے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ نشانہ ایک ہے، ایک فریق اس کا سارا کچا چٹھا بیان کرکے رکھ دیتا ہے اور ایسا کرنے والا فریق بہت بڑے خطرات مول لے کر یہ کام کرتا ہے، وہ اربوں کھربوں کا نقصان کراتا ہے، اس ’’خانوادہ‘‘ کے لوگ گھر والوں سے الوداعی ملاقات کرکے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں، ایک فریق اس کے علاوہ بھی ہے، وہ بین بین چلتا ہے، اگر کسی روز ہلکا زخم لگاتا ہے تو اگلے روز اس زخم پر مرہم بھی رکھ دیتا ہے۔ تاہم ایک گروہ ایسا بھی ہے اور یہ ’’زمانۂ قدیم‘‘سے چلا آ رہا ہے، یہ طاقت کا دست و بازو بنتا ہے اور دست و بازو سے بے شمار مراعات سمیٹتا ہے تاہم اس گروہ کا کمال یہ ہے کہ اس جیسے بے شمار لوگ انہیں ہیرو بھی سمجھتے ہیں۔

میرے نزدیک ہمارا میڈیا اپنی مختلف پالیسیوں سے سیاست کا بازار بہرحال گرم رکھتا ہے اور اس کی پالیسی کچھ بھی ہو ایک حد تک اس میں خیر کا یہ پہلو بھی نکل آتا ہے کہ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے سامنے تصویر کے دونوں رخ آجاتے ہیں اور یوں وہ اپنی رائے قائم کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت ایک بہت جانباز قسم کا میڈیا عوام کے درمیان موجود ہے یہ جنگ اور جیو کی صورت میں رجزیہ کلمات کے ساتھ روزانہ میدان کار زار میں اترتا ہے، اس کے سالار میر شکیل الرحمٰن اور ان کے دست و بازومیر ابراہیم ہیں، ایک وقت تھا کہ میں بھی یہ سمجھا کرتا تھا کہ سرمایہ دار کسی بھی ایشو پر کبھی اسٹینڈ نہیں لے سکتامگر جنگ اور جیو گزشتہ دو تین دہائیوں سے مسلسل جمہوریت، فرد کی آزادی، ترقی پسندانہ رجحانات اور آمریت کے حوالےسے ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ابھی تک کروڑوں اربوں روپے کا نقصان برداشت کر بیٹھے ہیں صرف یہی نہیں نازو نعم میں پلا ہوا نرم و نازک احساسات کا مالک میر شکیل الرحمٰن اپنے اصولوں کی پاسداری کی خاطر قیدو بند کے مراحل سے بھی گزر چکا ہے انہیں پیغام پہنچایا گیا کہ دس کروڑ یا اس سے کم و بیش رقم ادا کردیںتو ان کی قیدختم کی جا سکتی ہے مگر میر صاحب کی مرحومہ والدہ نے بہت خوبصورت بات کہی کہ جو عزت اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے مل رہی ہے اس سے چند کروڑ روپوں کے لئے کیسے دستبردار ہوا جا سکتا ہے ۔

میر شکیل الرحمٰن اور ان کی انتہائی کومیٹڈ ٹیم نے صرف جنگ اور جیو کو ایک ’’برینڈ‘‘ ہی نہیں بنایا بلکہ ملک و قوم کی پائیدار بنیادوں کو مستحکم بنانے کے لئے ’’پاگلوں‘‘ کا ایک دستہ بھی تیار کر دیا ہے جو ذاتی نفع نقصان کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ بڑے سے بڑا خسارہ مول لے کر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے ان میں سے شہادت اور شہادت کے بہت قریب سے گزرنے والے جانباز صحافی بھی ہیں، ان کے گھروں کو بھی غیر محفوظ بنا دیا گیا ہے۔سچی صحافت کرنے والے یہ لوگ ان بے پناہ مراعات سے بھی محروم رہنا پسند کرتے ہیں جو ان کی ایک ’’ہاں‘‘ سے انہیں حاصل ہوسکتی ہیں ،میں اگر ان کا نام لینا چاہو ںتو وہ اتنے زیادہ ہیں کہ میرے کالم کی حدود میں نہیں سما سکیں گے ۔ان میں سے کچھ دوسرے اخبارات اور چینل سے بھی وابستہ ہیں مگر ان کی ایک تعداد کی تربیت اسی جمہوری درس گاہ سے ہوئی ہے جو آج پاکستان کا صف اول کا صحافتی ادارہ ہے اور جس سے منسلک ہونا اپنے طور پر ایک اعزاز ہے۔ اللہ کرے یہ ہمیشہ کسی مرحب کے سامنے وہی رجزیہ کلمات دہراتے رہیں جوحضرت علی حیدر کرارؓ نے دہرائے تھے !ایک معاشرتی علوم کے طالب علم نے پرچے میں پاکستان میں جمہوری ارتقا کے مراحل کا احاطہ کچھ اس طرح کیا ہے، ’’یہ ایک سفر ہے جو ووٹوں سے شروع ہو کر بوٹوں تک،بوٹوں سے شروع ہو کر نوٹوں تک اور نوٹوں سے لیکر لوٹوں تک جاری و ساری ہے ۔‘‘

آخر میں ایک حسبِ حال غزل :

جس کو دیکھو کال یا تصویر کے چکر میں ہے

عشق بھی تعویذ والے پیر کے چکر میں ہے

ہوش میں مجنوں ملے گا جھنگ کے بازار میں

چھوڑ کر لیلیٰ کو اب وہ ہیر کے چکر میں ہے

اتنا بھی آساں نہیں ہے دل کسی کا جیتنا

پوچھ لے انڈیا سے جو کشمیر کے چکر میں ہے

کل تلک شاعر تھا جو گوشہ نشیں ، خاموش سا

فیس بک پر آج کل تشہیر کے چکر میں ہے

حال وہ سنتا نہیں ہے مختصر الفاظ میں

اور یہ معصوم دل تفسیر کے چکر میں ہے

رات پھر روتا ہوا وہ آنکھ میں ہی سو گیا

اک ادھورا خواب جو تعبیر کے چکر میں ہے

وقت سے پہلے ملیں جو تلخیاں مقدور تھیں

زندگی کی ہر خوشی تاخیر کے چکر میں ہے !