’’دبستانِ سارقین‘‘ دوسروں کی نگارشات چُرانے والوں کے نام

December 04, 2022

ادبی اصناف کی چوری ’’ادبی سرقہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ویسے تو ادب پر ہر دَور اور ہر خطّے میں اپنے اپنے انداز سے نقب لگا ئی جاتی رہی ہے، مگر آج کی تیکنیکی سہولتوں اور بلا کی ذہانت کے موجب اس عمل نے باقاعدہ، ’’دبستانِ سارقین‘‘ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سرقہ، دنیا کے ہر کلچر کاحصّہ رہا ہے۔ ہمارے خیال میں ’’انٹرا لٹریچر پلیجر ازم‘‘ یعنی ایک ہی ادب کے اندر سے کیا گیا سرقہ مع مسروقہ مواد جلد منظر عام پر آسکتا ہے، کیوں کہ اپنی تہذیب کے ادب سے عوام کی بھی شناسائی ہوتی ہے اور وہ ادبی چوری کی ٹوہ بآسانی لگا سکتے ہیں، مگر بین الاقوامی ادب سے کیے گئے سرقے کا سُراغ لگانا کافی کٹھن ہوتا ہے۔

سطحی نوعیت کے شعراء و ادباء محدود صلاحیتوں کے باعث صرف اپنی زبان و ادب ہی سے سرقہ کر پاتے ہیں، مگر انتہائی معروف اور قابل شعرا اپنی غیر معمولی استعداد کے بل بُوتے پر دنیا کے کسی بھی ادب کے ادبی سمندروں کے مشّاق غواص ہو سکتے ہیں۔

دنیا کے ہر ادب سے دوسرے ادب میں سرقے کا رواج معمول کی بات ہے۔ بہت سے شہرۂ آفاق ناولز، ڈرامے ا ور فلموں کی چربہ سازی تو عام بات ہے۔ بہرحال، اس ادبی چوری اور چربہ سازی کو دو اقسام میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔

سرقۂ معروف:

کسی معروف شاعر کے کلام کو خود سے منسوب کرنا سرقۂ معروف کہلاتاہے، جو ادبی سرقے کی روایتی اور عام قسم ہے۔ اس سے بڑھ کرادب کی بے ادبی اور کیا ہوگی کہ کسی آنجہانی کی ادبی تخلیق چُرا کر اُسے اپنی ادبی اولاد ثابت کردیا جائے۔ ادبی سرقے کی روایتی قسم میں دوسروں کے اشعار و نثر اپنے نام سے متعارف کروانا شامل ہے۔ اسے ’’سرقۂ بالجبر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے احباب، جو بوجوہ شعر و ادب کا جنون پال بیٹھتے ہیں، مگر صلاحیتیں ساتھ نہیں دیتیں، تو وہ اکثر ایسی چوریاں کر بیٹھے ہیں۔

کسی مشاعرے میں ایک نوجوان نے احمد ندیم قاسمی کے رو برو انہی کی ایک غزل اپنے نام سے سُنا ئی اور ان کے پاس آکر قدم چُھو کر کہا ’’ہم آپ کے بچّے ہیں اور بچّوں کا بڑوں پر اتنا تو حق ہوتا ہی ہے۔‘‘سارقین، ادبی دنیا کے ایسے ’’جوہڑِ نایاب‘‘ ہیں، جو اپنے جذبات کی عکّاسی کے بجائے، دوسروں کے خیالات کی ’’ نکاسی‘‘ تک محدود ہو کررہ جاتے ہیں۔

حال ہی میں خبر سُنی کہ نو سو چوہے کھا کر بلّی کے حج کرنے کے مصداق، وطنِ عزیز کے 900 اسکالرز ڈاکٹریٹ کی ڈگری لیتے لیتے سرقے میں پَھڑے گئے۔ہمارے یہاں تو گویا ایک کتاب سے چوری سرقہ اور بہت سی کتابوں سے ڈاکے مارنا ’’ریسرچ‘‘ کہلاتا ہے۔ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ قلم کرنا ہے، توپھر ادبی چوری(سرقہ)کی سزا ہاتھ سے قلم کا قلع قمع تو بنتا ہی ہے۔ویسے بھی تحقیقی مقالوں کی حیثیت ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان تک ہڈیوں کی منتقلی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔

سرقۂ مجہول:

اپنی یا کسی اجنبی کی نگارشات، مشہورشعراء سے منسوب کرنا سرقے کی ایک جدید قسم ہے، جسے سرقۂ مجہول کہا جاسکتا ہے۔ بے شمار اوٹ پٹانگ، بےوزن، فضول اشعار، اقبال و فراز اور سیکڑوں اقتباسات سعدی و جبران کے کھاتوں میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ اسے ’’سرقۂ بالرضا‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک غیر معروف تخلیق کار اپنی تحریر، اپنی مرضی سے کسی معروف ادیب یا شاعر کے نام سے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ ویسے ایک افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ مجبوری، غربت و افلاس کے سبب بھی کئی ادبی پارے دوسروں کے نام جُڑ جاتے ہیں۔جیسے بیرونِ مُلک مقیم ایک معروف متشاعرہ کو ایک شاعر نے پوری کتاب لکھ کر دے دی، تاکہ وہ مشہور ہوسکیں۔

تَوَارُد:

بظاہر’’توارد‘‘ سرقے سے ملتا جلتا ہی عمل ہے، مگر دونوں کے مابین فرق معلوم ہونا چاہیے۔ کسی کی ادبی تخلیق یا تخیّل کو چُرا کر خود سے منسوب کرنا سرقہ کہلاتا ہے، جب کہ اتفاقاً کسی کے کلام یا خیال سے مماثلت کو ’’ توارد‘‘ کہتے ہیں۔اکثر شعراء اور ادباء کے اشعار یا تصوّرات ملتے جُلتے ہوتے ہیں، مگر ان میں سرقے کا عنصر نہیں ہوتا۔ سرقہ غیر ادبی اور غیر اخلاقی عمل ہے، جب کہ توارد معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

ادب کی تاریخ میں غالباً تمام ہی بڑے شعراء پر سرقوں کا الزام لگا، حتیٰ کہ علّامہ اقبال کے ناقدین کے مطابق اُن کے کلام میں بھی انگریزی،عربی اور فارسی زبانوں سے کیا گیا سرقہ یا چربہ شامل ہے۔ حالاں کہ وہ سرقہ ہے، نہ توارد، بلکہ مختلف زبانوں کے اشعار اور نظموں کا اردو ترجمہ ہے۔ اقبال نے انگریزی اور فارسی کے بہت سے کلاموں کے منظوم تراجم لکھے اور ساتھ ان کی تفصیلات بھی درج کیں۔

مثلاً، خوش حال خان خٹک کے شعر ؎ ’’دخوشحال سلام پہ ھغہ شا زلمو دے…کمندونہ چی دستوروپہ اسمان رِدی۔ کا ترجمہ علّامہ اقبال نے کچھ یوں کیاکہ ؎ محبّت مجھے اُن جوانوں سے ہے…ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔ تویاد رکھیں، کسی سے متاثر ہوکے لکھنا یا کسی اور زبان کے کلام کو اپنی زبان میں ترجمہ کرنا ہرگز معیوب نہیں، لیکن کسی کا خیال، الفاظ، مضمون، اشعار چُرا کے اپنے نام سے شایع کروادینا انتہائی قبیح فعل ہے۔