سیلاب کی تباہ کاری اور ہماری ذمے داری

December 04, 2022

وردہ صدیقی

رواں برس مون سون کے بعد آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں لاتعداد بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، کھیتیاں برباد ہوگئیں، کاروبار ڈُوب گئے۔ چاروں صوبوں کے 116 اضلاع کے سیلاب کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے مُلک کے ایک تہائی رقبے پر تاحال تباہی و بربادی کے اَن مٹ نشانات ثبت ہیں۔ گرچہ کاریوں کا اب تک درست اندازہ لگاکر حتمی اعدادو شمار جاری نہیں کیے گئے، تاہم نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق، پاکستان میں تین کروڑ تیس لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے۔ دولاکھ اٹھارہ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور چار لاکھ باون ہزار گھروں کو نقصان پہنچا۔ جب کہ مویشیوں اور فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

سات لاکھ چورانوے ہزار مویشی ہلاک اور بیس لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین تباہ ہوئی، جس میں بلوچستان کا تین لاکھ اٹھہترہزار، پنجاب میں ایک لاکھ اٹھتر ہزار اور سندھ کا لاکھ چوّن ہزار ایکڑ رقبہ شامل ہے۔ سیلاب کے منہ زور ریلوں سے قومی شاہ راہوں اور پُلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ تین ہزار سے زائد کلومیٹر سڑکیں اور 145 پُل تباہ ہونے سے مُلک کے کئی علاقوں کا زمینی رابطہ مُلک بھر سے منقطع ہوگیا۔

اگرچہ حکومتِ پاکستان نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور متاثرین کی داد رسی کے لیے کچھ اقدامات کیے، تاہم اس ناگفتہ بہ صورتِ حال میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا کہ دراصل کُل اُمّت مسلمہ جسمِ ِواحد کی طرح ہے۔ایک بھائی کو تکلیف پہنچتی ہے، تو دوسرے کو بھی لازماً تکلیف ہوتی ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں اپنے مال و متاع اور چھتوں سے محروم ہوجانے والے متاثرین، جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے دُکھ میںپورا ملک اب تک سوگ وار ہے۔ عوام کی ایک کثیر تعدادتقریباً دو ماہ سے اپنے بہن بھائیوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کررہی ہے۔

اُنھیں کھانے پینے، اوڑھنے پہننے اور رہنے کا سامان پہنچایا جارہا ہے۔ جس سے جتنا بن پارہا ہے، اس نیکی میں اپنا حصّہ شامل کررہا ہے، لیکن تباہی و بربادی اس قدر زیادہ ہے کہ مکمل ازالہ آسان نہیں۔ نہیں ہوسکا۔ اب بھی لاتعداد افراد اور خاندان بے بسی کے عالم میں خیمہ بستیوں یا کھلے آسمان تلے موجود ہیں۔ موسمِ سرما کی آمد آمد ہے، ذرا سوچیے، خون جما دینے والی سردی کا آغاز ہوگا، تو ان بے در، بے گھر لوگوں کیا بنے گا۔ مومن کو دنیا میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے، تو وہ تکلیف اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور اس پر اجر و ثواب سے بھی نوازا جاتا ہے، اس کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’مسلمان جب بھی کسی تھکاوٹ، بیماری، فکر، رنج و ملال، تکلیف اور غم سے دوچار ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چُبھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اُس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ یقیناً یہ تکالیف و مصائب اللہ کے مومن بندوں کے لیے آزمائش ہیں۔ جب کہ سورۃ البقرہ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’بےشک ہم تمہیں آزمائیں گے، کسی قدر خوف، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوش خبری سنادیجیے۔

جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ راہ یاب ہونے والے ہیں۔‘‘ تو یقیناً آزمائش میں مبتلا لوگوں اور ان کے دُکھ درد میںشریک افراد کو اللہ پاک کی طرف سے بہترین اجر ملے گا۔

ہمارے یہاں رُونما ہونے والے مختلف حادثات و واقعات پر حکم رانوں کو کوسنا عام بات بن چکی ہے۔ ان کی غیر ذمّے داریوں پر اُنھیں لعنت ملامت کیا جاتا ہے، لیکن یہ نہیںدیکھتے کہ بحیثیت انسان اور مسلمان ہم اپنے مصیبت زدہ بھائی بہنوں اور بچّوں کے لیے کیا کررہے ہیں۔ دوسروں کی نالائقیاں کو گِنوانے کے بجائے ہم میں سے ہر ایک کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ اپنے فرائض اور ذمّے داریاں کس حد تک ادا کررہے ہیں؟ بہت سی ایسی مائیں ہیں، جن کے لال اُن کی آنکھوں کے سامنے ڈوب کر موت کی وادیوں میںکھو گئے۔ بہت سے بچّوں کے والدین ان سے بچھڑ گئے۔ بیوی کو معلوم نہیں کہ اس کا شوہر کہاں ہے، بھائی نہیں جانتا کہ بہنیں اگر زندہ ہیں، تو کس حال میں ہیں۔

مکان و مکین سب اُجڑ گئے۔ ایک لمحے خود کو اُن کی جگہ رکھ کر سوچیں، تو شاید آپ کے حلق سے نوالہ نہیں اُترے گا، دن کا چین اور رات کا سکون ختم ہوجائے گا۔ اگرآج ہم محفوظ ہیں، تو ربّ کا شُکر بجا لائیں، کیوںکہ پروردگار آپ کو آزمائش سے بچا کر بھی آزماتا ہے کہ آیا میرے بندے اب بھی غفلت کی چادر اوڑھے سوتے رہیں گے یا عبرت حاصل کرکے اپنی اصلاح کریں گے، لہٰذا بقدرِ حیثیت امداد میں اپنا حصّہ ملا کر اور فضول اخراجات کو کم کرکے کچھ حصّہ اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کے لیے مختص کردیں۔

اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے، ’’آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے، جو مال تم خرچ کرو، وہ ماں باپ کے لیے ہے اور رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔‘‘

سیلاب زدگان ڈینگی، ملیریا اور دیگر کئی وبائی امراض کے ساتھ آنے والی سردی کے خطرے سے دوچارکیمپوں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میںضرورت اس امَر کی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو موسمِ سرما کی آمد سے قبل ہی جلد از جلد مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔

بلاشبہ،ان افراد کے دُکھ، درد وتکلیف کا دنیا میں کوئی بدل نہیں، اُن کے بچھڑے رشتے واپس نہیں آسکتے، مگر اس تکلیف اور کڑی آزمائش کے بعد اب وہ اللہ کے خاص بندے بن چکے ہیں، لہٰذا اُنھیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوںکہ یہ دنیا تو مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنّت ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو ہر قسم کی آزمائش سے محفوظ فرمائے، بے گھر خاندانوں کو گھر نصیب فرمائے اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں ان کا سہارا بننے کی توفیق دے۔