دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 1)

December 04, 2022

ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا تعلق شعبۂ طب سے ہے، مگر ادبی دنیا میں پہچان بطور افسانہ نگار ہے۔ مُلک کے کئی معروف ادبی جرائد کے علاوہ جنگ، سنڈے میگزین میں بھی اِن کے افسانے تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ افسانوں کی دو کتابیں ’’دروازے کُھلے رہیں گے‘‘ اور ’’خُوشبو کا پہرہ‘‘ منظرِ عام پر آچُکی ہیں، تو ایک ناول ’’محافظ‘‘ کے بھی دو ایڈیشنز شایع ہوچُکے۔ زمانۂ طالب علمی میں علّامہ اقبال میڈیکل کالج، لاہور کے ادبی جریدے ’’شاہین‘‘ کے مدیر رہے۔

ڈاکٹر رانجھا نےحال ہی میں سفرِ ہند کیا۔ اِس سفر کے دوران قیام دہلی میں رہا۔وہی دہلی، جو دریائے جمنا کنارے چَھٹی صدی قبل مسیح سے آبادہے، تاریخ میں کئی سلطنتوں، مملکتوں کا دارالحکومت رہا، کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ وہی دہلی، جسے مشائخِ کرام، صوفی بزرگان(سلطانُ الہندخواجہ معین الّدین سیّد حسن اجمیری، شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا، خواجہ قطب الدّین بختیارکاکی، حضرت امیر خسرو اور حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی) نے میدان ِ عمل بنا کر سرزمینِ ہند میں تصوّف کابُوٹا لگایا، خونِ جگر سےاسلام کی آب یاری کی۔ جو کئی صدیوں تک مختلف مسلمان حُکم رانوں کا پایۂ تخت رہا۔

اردو زبان کے جیّد ادیبوں، شاعروں (میر، غالب، ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر، سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، فرحت اللہ بیگ) کا مسکن کہ سلطنتِ دہلی کے عروج کے ساتھ یہ شہر تاریخ و تصوّف، شعر و ادب، فن و ثقافت اور سیاست و تجارت کی آماج گاہ کے طور پر اُبھرا۔ وہی دہلی، جس کی شاہ راہیں، دروازے، ریلوے، میٹرو، عبادت گاہیں (مساجد، مندر، گرجاگھر) اور پکوان اِک عالم میں مقبول ہیں۔ جس سے متعلق کئی کہاوتیں، اشعار زبانِزد ِعام ہیں۔ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ ، ’’دلی دل والوں کی‘‘ اور’’آس پاس برسے، دلی پانی ترسے۔‘‘ اور ؎ دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب…رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے …اُس کو فلک نے لُوٹ کے برباد کر دیا… ہم رہنے والے ہیں، اُسی اجڑے دیار کے۔ ؎ تھا ذوقؔ پہلے دہلی میں پنجاب کا سا حُسن…پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا۔ ؎تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ…نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز۔ ؎دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے …جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی۔ اور ؎جنابِ کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی …یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں۔

گرچہ جدیدیت کے رنگوں نے، گزرے زمانوں کے نقوش خاصے دھندلا دیئے ہیں، لیکن عظیم تاریخ کے اَن گنت آثار، عہدِ قدیم اور قرونِ وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثارِ قدیمہ آج بھی موجود ہیں اوریہی کشش سفرنامہ نگار کو وہاں کشاں کشاں لیےچلی۔ بطوررکن، پاکستانی وفد، حضرت امیر خسرو کے عرس کی تقریبات میں بھی شرکت کا موقع ملا اور دہلی کا چپّا چپّا تو دیکھا ہی گیا۔

بہرکیف، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے بطورِ خاص، کسی قدر افسانوی انداز ہی میں لکھا گیا یہ قسط وار سفرنامہ آپ کی نذر ہے۔ تحریر سے متعلق ہمیں اپنی آرا سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔ (ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

سبز پاسپورٹ ہاتھ میں تھامے، بیگ دھکیلتے ہم نے پاک رینجرز کے جوان کو پاسپورٹ پہ لگا بھارت کا ویزا چیک کروایا۔واہگہ بارڈر کا وہ آہنی گیٹ نظر بھر کے دیکھا، جسے کئی بار پریڈ دیکھتے ہوئے ایک عجب تجسّس کے عالم میں دیکھا کرتے تھےاور پھر دوسری جانب زیرو لائن عبور کرتے ، سرزمینِ بھارت پہ قدم رکھ دیا۔ سچ کہیں تو دل بہت زور سے دھڑکا۔اُس روز ہم نے محسوس کیا کہ ہم اپنے وطن سے کس قدر محبّت کرتے ہیں کہ محض چند قدم کا فاصلہ طے کرتے ہی، وطن سے دُورہونے کی جو کسک سی دل میں اُٹھی،ناقابلِ بیان ہے۔

خیر، ایک طرف بی ایس ایف کے جوان نےہمارا پاسپورٹ اور ویزا چیک کیا، تو وہیں ایک خوف ناک کتّےنے بیگ کے اِردگرد گھوم کر پہلے سامان، پھر ہمیں سونگھا اور پھر اگلے مسافر کی طرف بڑھ گیا۔ بعدازاں، ہم اس معمول کی چیکنگ کے بعد شدید گرمی میں پسینے سے شرابور آہنی تاروں کی باڑ کے ساتھ لگے گھنے درختوں کے سائے میں دائیں ہاتھ پر بنی بی ایس ایف کی چیک پوسٹ کی طرف چل دیئے، جہاں بی ایس ایف کی شٹل بس، مسافر اور سامان لادنے کے لیے چیک پوسٹ کے پاس کھڑی تھی۔

بھارتی بارڈر پر شٹل بس کا انتظار کرتے ہوئے…

بس کے قریب پہنچنے کے بعد آم کے درختوں کے سائے میں سامان لوڈ ہونے کا ہی انتظار کررہےتھے کہ بی ایس ایف کا ایک لمبا تڑنگا جوان، سردار ہر پال سنگھ سب کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔وہ سرحد پار ملنے والا پہلا سکھ تھا، تو ہمارے گروپ کے اکثر افراد ہرپال سنگھ کے ساتھ فوٹو کھنچوانے میں مصروف ہو گئے، سردار جی نے بھی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے مونچھوں کو تاؤ دیا اور چہرے پہ ایک رعب سا طاری کرلیا، حالاں کہ اس کی شکل دیکھ کر صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اسے خوشی ہو رہی ہے کہ تمام لوگ باقی جوانوں کو چھوڑ کر اس سے متاثر ہوکے اُس کے ساتھ فوٹو کھنچوا رہے ہیں۔ خیر، تھوڑی ہی دیر میں شٹل بس سے پاکستان جانے والے مسافر اُترے اور ہم لوگ اس میں سوار ہو گئے۔

اب بس اٹاری امیگریشن چیک پوسٹ کی جانب رواں دواں تھی۔ اتنے میں ہمیں بائیں جانب تماشائیوں کا وہ اسٹینڈ نظر آیا، جہاں بیٹھ کے بھارتی عوام، واہگہ، اٹاری پہ ہونے والی شام کی پریڈ اور پرچم اتارنے کی تقریب دیکھتے ہیں۔ اٹاری امیگریشن بلڈنگ کے باہر بس سے اُترے، تو بائیں ہاتھ کی طرف ایک ٹِین کے شیڈ کے نیچے سب لوگ امیگریشن اور ہیلتھ ڈیکلریشن فارم بھرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے، جہاں امیگریشن عملے کے ایک سردار جی نے روایتی انداز میں ہاتھ جوڑ کر ’’ست سری اکال‘‘ کہتے ہوئے ہمارا استقبال کیا۔

ان سے فارم میں درج ایک دو کالمز سے متعلق استفسار کیا، تو پنجابی میں بولے’’لیاؤ، مینو دیو فارم، تُسی بولدے جاؤ، تاں مَیں بھردا جانا واں‘‘(لاؤ، فارم مجھے دو، تم بولتے جاؤاور مَیں بھرتا جاتا ؤں)۔ہم نے اپنا فارم سردار جی کو تھمادیا اور انہوں نے فارم بھر کے ہمیں واپس پکڑادیا۔ پھر وہیں شیڈ کے نیچے کھڑے ایک بی ایس ایف کے جوان نے دائیں جانب قائم امیگریشن کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہاں چلے جائیں۔‘‘ہم بھی بیگ دھکیلتے ہلکے گلابی رنگ کی عمارت کی طرف جس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا سا گنبد تھا، چل دیئے۔ اتنے میں اچانک کہیں سے دو، تین بوڑھے قلی نمودار ہوگئے اور بس گھیر لیا۔ ’’صاحب! ہم بہت غریب ہیں، کام ٹھپ پڑا ہے، کبھی کبھار ہی تو مسافر آتے ہیں ادھر۔

تجارت بھی سب بند پڑی ہے، یہ سامان ہمیں پکڑا دیں، پیسے اپنی مرضی کے دے دیجیے گا۔‘‘مگر بد قسمتی سے اُس وقت ہمارے پاس انڈین کرنسی نہیں تھی کہ ویزےمیں درج ہدایات کے تحت بھارت میں باہر سے انڈین کرنسی لانا ممنوع تھا۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی منع کرنا پڑا۔مگر اُس بوڑھے قُلی کا جھرّیوں بَھرا چہرہ اور لاغر جسم مسلسل یہ سوچنے پر مجبور کرتا رہا کہ یوں تو پاکستان اور بھارت دو الگ ممالک ہیں، لیکن غور کریں، تو غربت اور غریبوں کا حال دونوں ہی جگہ ایک سا ہے(دہلی جاکرہم نے سب سے پہلے جامع مسجد، دہلی کے پاس مٹیا محل بازار کے منی ایکسچینجر سے انڈین کرنسی لی، جو ایک ہزار پاکستانی روپے کے چار سو ستّر انڈین روپے بنے۔

ویسے پاکستان سے بھارت جانے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ یہاں سے ڈالرز لے جائیں کہ وہاں ڈالر کا اچھا ریٹ مل جاتا ہے۔اور اگر پاکستانی روپے ہی لے کر جا رہے ہیں، تو مٹیا محل بازار کے منی ایکسچینجر ہی سے انڈین کرنسی لیں کہ اوّل تو دہلی میں کوئی پاکستانی کرنسی خریدنے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر کوئی خرید بھی لے، تواونے پونے ہی خریدتا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی، فیض مصطفیٰ کو ’’بستی نظام الدّین‘‘ کے بازار میں ایک ہزار پاکستانی روپے کے ساڑھے تین سو انڈین روپے سے زیادہ کوئی دینے کو تیار نہیں تھا۔)

خیر، ہم بیگ دھکیلتے انڈین امیگریشن کی ہلکے گلابی رنگ کی عمارت میں داخل ہوئے اور سامان اسکین کروا کے، بی ایس ایف والوں کو ہلکی پھلکی تلاشی دے کر ایک میز کے سامنے مسافروں کی قطار میں لگ گئے۔ اور وہ قطار اُس میز پہ جا کے ختم ہو رہی تھی، جس پر پانی کا ایک کولر دھرا تھااور تین، چار عُمر رسیدہ خواتین کولر کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی، ٹھیٹھ پنجابی میں گپّیں لگا رہی تھیں۔

ہمیں لگا،کولر میں شاید ہماری تواضع کے لیے پڑوسیوں نے کسی مشروب کا بندوبست کر رکھا ہوگا کہ مہمان اتنی گرمی میں لُو کے تھپیڑے کھاتے آرہے ہیں، تو ٹھنڈے مشروب سے اپنی بلبلاتی روحوں کو کچھ چین مہیا کرسکیں، لیکن بعد میں پتا چلا کہ مشروب کہاں، اس کے اندر تو کڑوے کسیلے پولیو کے قطرے ہیں، تو پہلے تو ہم نے پولیو سے بچاؤ کے قطروں کا انٹرنیشنل سرٹیفکیٹ، جو جناح اسپتال، لاہور سے پولیو ڈوز لے کے بنوایا تھا،اُن کے سامنے رکھا اور لہجے میں بھرپور شیرینی بھرکرانتہائی لجاجت سے کہا ’’یہ تو ہم پہلے سے لاہور میں پی چُکے ہیں، اب پلیز ہمیں دوبارہ نہیں پلائیں۔‘‘

جس پر خواتین نے سرٹیفکیٹ دیکھ کر واپس کرتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں، آپ ہمارے مہمان ہیں، ہمیں بھی تواضع کا موقع دیں اور یہاں دوبارہ پی لیں۔‘‘ جواباً ہم نے سب سے معمّر خاتون سے پنجابی میں کہا’’باجی! تُسی اسٹاف نرس ہو؟‘‘ (باجی آپ اسٹاف نرس ہیں)’’باجی‘‘ سُنتے ہی جیسے اُن کے چہرے پہ بہار سی آگئی۔ سپاٹ چہرے پہ یک لخت مسکراہٹ کی لکیر سی پھیل گئی۔ ’’جی، مَیں امرتسر دے سرکاری اسپتال وِچ اسٹاف نرس آں، تے پچھلے کجھ مہینیاں تُوں میری ڈیوٹی ایتھے ویکسی نیشن تے لگی ہوئی اے۔‘‘(جی، مَیں امرتسر کے سرکاری اسپتال میں اسٹاف نرس ہوں اور پچھلے کچھ مہینوں سے میری ڈیوٹی یہاں ویکسی نیشن پہ لگی ہوئی ہے۔)’’باجی! تُسی اسٹاف ہو، تے مَیں لہور دے جناح اسپتال وِچ ڈاکٹر۔سمجھو، تُسی میری پیٹی بھرا، مطلب پیٹی بھین ہو، تے مہربانی کرو، ایہہ سرٹیفکیٹ مَن لو، تے میری اِنہاں کسیلے قطریاں توں دوجی واری پین تو جان بخشی کرا دیو۔‘‘ (باجی آپ اسٹاف نرس ہیں اور مَیں لاہور کے جناح اسپتال میں ڈاکٹر، سمجھ لیں آپ ہماری پیٹی بھائی، مطلب پیٹی بہن ہیں۔

مہربانی کرکے یہ سرٹیفکیٹ مان لیں اور ان کڑوے قطروں کو دوسری بار پینے سے جان بخشی کروادیں)، مَیں نے ملتجی لہجے میں کہا۔ ’’بھراوا! قطرے تاں پینے ای پینے نیں۔‘‘(بھائی، قطرے تو پینے ہی پڑیں گے)۔یہ کہتے ہوئے نرس نے قطروں کی بوتل کھولی اور ہمیں اپنامنہ کھولنا پڑا۔’’اچھا آنٹی جی، ربّ راکھا۔‘‘ہم نے بھی جان بوجھ کر معمّر خاتون کو آنٹی کہا، تو باجی سے یک دَم آنٹی ہو جانے پر ان کی مسکراہٹ غائب، چہرہ سپاٹ ہوگیا بلکہ تیوری پر بل آگئے۔یہ دیکھتے ہوئے ہم نے پھر ایک بار کہا ’’اچھا خالہ جی، فیر ملاں گے‘‘ (اچھا خالہ جی،پھر ملیں گے) اور کن اکھیوں سے مُڑ کے دیکھا، تو اسٹاف نرس ہمیں کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھیں۔

ہم نے کڑوے قطروں کی ’’تواضع‘‘ کا ذائقہ منہ میں لیے ہی قلی سے پوچھا، ’’یہاں کہیں سے پینے کے لیے پانی مل جائے گا؟‘‘ تو اس نے بائیں طرف اشارہ کیا، جہاں ایک چھوٹی سی راہ داری کے سِرے پہ واٹر کولر لگا تھا، لیکن گلاس کہیں نظر نہیں آرہا تھا، خیر ہم نے چلّو میں پانی بھرا اور حلق میں انڈیل لیا کہ کچھ تو منہ کا ذائقہ بہتر ہو۔ ٹھنڈے پانی سے طبیعت بحال ہوئی، تو واش روم جانے کی حاجت محسوس ہوئی، اسی راہ داری کے شروع میں ایک واش رُوم تھا، سو وہاں جاگُھسے،لیکن واش روم اچھا خاصا گندا تھا۔واش رُوم سے نکل کے سنک پہ ہاتھ منہ دھویا اورایک بار پھر امیگریشن لائن میں جالگے۔

جس کاؤنٹر پہ ہماری باری آئی، اُس پہ سانولی رنگت کے، چھوٹے قد، مگر قدرے صحت مند جسم کے حامل لالا جی ماتھے پہ تلک لگائے، چاندی کی مختلف نگینوں والی انگوٹھیاں پہنے اور موٹے عدسوں کا چشمہ لگائے بیٹھے تھے، جو امیگریشن آفیسر کم اور سادھو زیادہ لگ رہے تھے۔ ہم نے امیگریشن شیٹس اور پاسپورٹ ان کے ہاتھ میں پکڑایا۔ سفارت خانہ ہند، ویزے کے ساتھ دو امیگریشن شیٹس بھی جاری کرتا ہے، جس میں سے ایک شیٹ بھارت میں داخل ہوتے ہوئے جمع ہوجاتی ہے، جب کہ دوسری واپسی پہ جمع کرتے ہیں۔ تو جو دوست بھارت جائیں، وہ امیگریشن آفیسر سے دوسری شیٹ ضرور یاد سے واپس لیں، ورنہ بھارت سے واپسی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔

خیر، لالا جی نے پہلے موٹے شیشوں کی عینک میں سے پاسپورٹ کا بغور جائزہ لیا۔ اس کے صفحے اُلٹ پلٹ کر دیکھے، پھر عینک کے شیشوں کے اوپر سے ہمیں گھورا، ہماری تصویر کھینچی، ہمارے دونوں ہاتھ مشین پہ رکھ کے اسکین کیے، اور پھر کچھ دیر پاسپورٹ دیکھنے کے بعد بالآخر داخلی اسٹیمپ لگاتے ہوئے ایک امیگریشن شیٹ اپنے پاس رکھی اور دوسری مع پاسپورٹ ہمارے حوالے کر دی۔اگلے مرحلے میں بھارتی کسٹم والوں نے ہماراسامان چیک کیا ، جس کے بعد ہمیں بھارت میں داخلے کی اجازت ملی۔

امیگریشن عمارت کے دوسرے دروازے سے باہر نکل کر کچھ دیر تک ہم عمارت کے برآمدے میں کھڑے سامنے کے مناظر تکتے رہے، جہاں بہت بڑی پارکنگ میں ایک کھوکھا نما دُکان تھی، جس پہ کولڈ ڈرنک،جوس، چپس وغیرہ فروخت ہورہے تھے۔ پارکنگ میں کچھ پرائیویٹ گاڑیاں، کچھ ٹیکسیاں اور تین، چار بسیں بھی کھڑی تھیں۔ جو بس ہمارے حصّے میں آئی، اس کے ڈرائیور ہرنام سنگھ تھے۔ ہرنام سنگھ کے اشارے پر دُبلے، پتلےکنڈکٹر نے چشمِ زدن میں ہمارے دونوں بیگ اُٹھا کر بس کی ڈکی میں منتقل کر دیئے، تو ہم پسینہ پونچھتے ہوئے بس میں جابیٹھے۔

ابھی باقی مسافر بس میں بیٹھ ہی رہے تھے کہ ہرنام سنگھ نے ہمیں مخاطب کیا۔’’جی، سُنیا پاکستان وی بھارت ورگا ای ہے؟‘‘ (سُنا ہے پاکستان بھی بھارت جیسا ہی ہے )۔ ’’ہم نے تو بھارت ابھی دیکھا ہی نہیں،دیکھیں گے، تو پتا چلے گا۔ ہاں، بارڈر سے یہاں تک جتنا دیکھا ہے، پاکستان سے ملتا جلتا ہی لگا۔‘‘ ہم نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپاں نوں وی بڑا شوق اے کہ مرن توں پہلاں اِک واری ننکانہ صاحب مَتّھا ٹیک آئیے۔‘‘(مجھے بھی بڑا شوق ہے کہ مرنے سے پہلےایک بار ننکانہ صاحب ماتھا ٹیک آؤں) ہرنام سنگھ نے کہا۔ ’’تے ٹیک آؤ سردار جی۔‘‘(تو ٹیک آئیں سردار جی) ہم نے کہا۔ ’’پر سُنیا اے کہ پاکستان دا ویزا لگ جائے تے فیر کینیڈا دا ویزا نئیں لگدا؟‘‘(لیکن سُنا ہے کہ پاکستان کا ویزا لگ جائے، تو پھر کینیڈا کا ویزا نہیں لگتا)۔

’’سردار جی کینیڈا تاں بہت دُور اے ،جنی تہاڈی عُمر ہو گئی اے، تواڈے واسطے چنگا اے کہ تُسی کینیڈا دی بجائے ننکانہ صاحب جاکے متھا ٹیک آؤ، تے اگر کینیڈا ضرور ای جانا اے تے فکر نہ کرو، پاکستانی سبز پاسپورٹ نال پوری دنیا پھردے نیں، تے تُسی ایویں ای پاکستان دے ویزے توں ڈر رئے ہو‘‘(سردار جی، کینیڈا تو بہت دُور ہے، جتنی آپ کی عُمر ہو گئی ہے، آپ کینیڈا کے بجائے ننکانہ صاحب جا کے ماتھا ٹیک آئیں اور اگرکینیڈا ضرور ہی جانا ہے، تو فکر نہ کریں، پاکستانی سبز پاسپورٹ کے ساتھ پوری دنیا گھوم آتے ہیں اور آپ بلاوجہ پاکستان کے ویزے سے ڈر رہے ہیں)۔ ہماری باتوں کے بیچ میں بس مسافروں سے بَھر چُکی تھی۔

امیگریشن چیک پوسٹ بارڈر سے ایک کلومیٹر دُور ہے۔بس امرتسر، اٹاری روڈ پہ آچُکی تھی اور پولیس کی گاڑیوں کا پروٹوکول ہوٹر بجاتے ہوئے بسوں کے آگے پیچھے چل رہا تھا۔ (جاری ہے)