مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 2)

December 04, 2022

بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا شدید غلبہ:حضرت سلیمان کی وفات کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا شدید غلبہ ہوا، اُنھوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کرلیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل، جس کا پایۂ تخت ’’سامریہ‘‘ قرار پایا۔ جنوبی فلسطین اور اُدوم کے علاقے میں سلطنتِ یہودیہ قائم کی، جس کا پایۂ تخت یروشلم رہا۔ یہ دونوں سلطنتیں مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ان میں سے اسرائیلی ریاست میں شرک اور بداخلاقی کے سیلاب نے ان کے دینی تشخص کو تباہ و برباد کردیا تھا اور اب اللہ کا عذاب ان کا مقدر بن چکا تھا۔ (تفہیم القرآن، 597/2)

یہودیوں کے زوال کی داستانِ عبرت 73:ء قبلِ مسیح میں ’’اشور‘‘ کے سخت گیر بادشاہ ’’سارگون‘‘ نے ریاست اسرائیل کےپایۂ تخت ’’سامریہ‘‘ کو فتح کرکے اسرائیلی حکومت کا خاتمہ کیا۔ ہزارہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گئے۔ 27ہزار بااثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر تتّربتّر کردیا گیا۔ چناں چہ کچھ یہودی ریاست اسرائیل سے بھاگ کر یثرب میں پناہ گزین ہوگئے۔ 598قبلِ مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے فوج کشی کرکے یروشلم سمیت پوری سلطنتِیہودیہ کو مسخّر کرلیا اور بادشاہ کو قیدی بناکر اپنے ساتھ لے گیا۔

اس موقعے پر بھی کچھ یہودی خاندان یثرب کی جانب کوچ کرگئے، جو اپنے علاقے میں رہے، وہ ذلیل و پامال ہوتے رہے۔ 587ء قبلِ مسیح میں بخت نصر نے ایک بار پھر سخت ترین حملہ کرکے یہودیوں کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یروشلم اور ہیکلِ سلیمانی کو پیوندِ خاک کردیا۔ یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو علاقے سے نکال کر ملک بدر کردیا، لہٰذا اس دوران چند قبائل نے یثرب کا رخ کیا۔ (تفہیم القرآن، 598/2) بابل کے حکمران بخت نصر نے ان حملوں کے دوران6 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اور چھے لاکھ سے زیادہ عورتوں، مردوں اور بچّوں کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر بابل لے گیا۔

جہاں یہ لوگ سوا سو سال تک بدترین غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے، ان ہی میں سے چند قبائل نے یثرب میں پناہ لی۔ 198 قبلِ مسیح میں یونانی سپہ سالار اینٹوکس سوم نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی، لیکن حضرت عزیر علیہ السلام کی دینی تعلیمات کا اثر تھا کہ بنی اسرائیل نے یونانیوں کو نکال کر ’’مکابی سلطنت‘‘ کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرلی۔ 63 قبلِ مسیح میں ’’پومپئی‘‘ نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے یہودیوں کی آزادی ختم کی۔ 70عیسوی میں رومی سپہ سالار جنرل ٹائٹس (Titus) نے بزورِ شمشیر یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ ہیکلِ سلیمانی کو ایک بار پھر مسمار کردیا گیا۔ جنرل ٹائٹس کے حکم پر شہر میں قتلِ عام ہوا۔

ایک دن میں ایک لاکھ33ہزار یہودی قتل ہوئے، جب کہ 67ہزار کو غلام بنالیا گیا۔ اس طرح ارضِ فلسطین سے بنی اسرائیل کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ بیسویں صدی کے شروع تک یعنی پورے دو ہزار سال یہ لوگ جلا وطنی اور انتشار کی حالت میں رہے۔ 70 عیسوی میں جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں مسمار ہونے والے ہیکلِ سلیمانی کی آج تک تعمیر نہ ہوسکی۔ یہ خلاصہ ہے اس قوم کی داستانِ عبرت کا، جو اپنے وقت کی عظیم قوم تھی۔ جس کے اندر 14سو برس تک مسلسل نبوّت رہی، جسے تین الہامی کتابوں سے نوازا گیا، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا،’’اے بنی اسرائیل، یاد کرو میری وہ نعمتیں، جو میں نے تمہیں عطا کیں اور تمہیں تمام جہانوں میں فضیلت دی۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر 122)۔

بنی اسرائیل کی مسلسل بداعمالیوں اور نافرمانیوں کی بناء پر یہودی امّت کو منصب سے معزول کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کو اس مسندِ فضلیت پر متمکن کیا گیا۔ حضورؐ نے اپنی امّت کے بارے میں فرمایا کہ ’’تم لوگوں پر بھی عین وہی حالات وارد ہوں گے، جو بنی اسرائیل پر ہوئے تھے۔‘‘ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ مسلمانوں کو پہلا عروج عربوں کی زیرِ قیادت نصیب ہوا۔ اس کے بعد جب زوال آیا، تو صلیبیوں کی یلغار کی صُورت میں ان پر عذاب کے کوڑے برسے، پھر تاتاریوں نے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی قیادت میں عالمِ اسلام کو تاخت و تاراج کیا۔

اس کے بعد قدرت نے عالمِ اسلام کی قیادت عربوں سے چھین کر اُن ہی تاتاریوں کے ہاتھوں میں دے دی، جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ تُرکوں کی قیادت میں امّتِ مسلمہ کو ایک دفعہ پھر عروج نصیب ہوا، لیکن نافرمانیوں کی بنا پر امّت مسلمہ پر دوسرا عذاب اقوامِ یورپ کی شکل میں آیا۔ چناں چہ بیسویں صدی کے آغاز میں عظیم الشّان عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور یورپی اقوام پورے عالمِ اسلام پر قابض ہوگئیں۔ (بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار احمد، جلد 4 ،صفحات - (288, 286۔)

یثرب اور اس کے اطراف یہودیوں کی نقل مکانی کی وجہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک بڑی تعداد میں یہودیوں نے یثرب کی جانب نقل مکانی کی اور یثرب سے خیبر تک بڑے حصّے میں رہائش پذیر ہوگئے، جہاں انہوں نے نہ صرف زراعت کو فروغ دیا، بلکہ اپنی مستقل رہائش کے لیے بڑے بڑے مکانات، حویلیاں اور جنگی قلعے بھی تیار کیے۔ بنی اسرائیل، اپنی مقدّس کتاب، توریت کے علم سے بخوبی واقف تھے۔

جس میں جزائرِ عرب میں نبی آخرالزماں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پذیر ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اور پھر پورے حجاز میں صرف یثرب ہی ایک ایسا شہر تھا، جو توریت میں بیان کی گئی شہرِ نبیؐ کی صفات پر پورا اُترتا تھا۔ یہودی اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد تمام نبیوں کا تعلق بھی بنی اسرائیل ہی سے تھا، لہٰذا اُنہیں اس بات کا کامل یقین تھا کہ آنے والے نبیؐ بھی بنی اسرائیل ہی سے ہوں گے۔

یہی وجہ تھی کہ بڑی تعداد میں یہودی مختلف ادوار میں مدینۂ منورہ اور اس کے قُرب و جوار کی سرسبز و شاداب وادی کی کُھلی فضائوں میں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہ لوگ گزشتہ پانچ سو برسوں سے نبی آخر الزماںﷺ کو خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے، لیکن جب اُنھیں اس بات کا علم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا ظہور ’’بنی اسماعیل‘‘ میں ہوا ہے، تو یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہوگئے۔ (سیرت رحمۃ للعالمین، 232/2)۔

یثرب آنے والے اوّلین یہودی قبائل: یثرب میں نقل مکانی کرنے والے اوّلین یہودی قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع تھے۔ یہ لوگ زراعت و باغ بانی پر دسترس رکھتے تھے۔ چناںچہ انھوں نے یہاں کی زرخیز سرزمین سے استفادہ کرتے ہوئے زراعت و باغ بانی کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کے ساتھ شہر کے اطراف تمام اہم مقامات پر قبضہ کرکے بڑے بڑے مکانات اور قلعے تعمیر کرلیے۔ (کتاب الاغانی، 95/19)۔

شہرِ مآرب کی تباہی: علّامہ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ملک یمن کے دارالحکومت صنعاء سے 60میل کے فاصلے پر ایک شہر مآرب تھا۔ جہاں ایک نام وَر قوم ’’سبا‘‘ آباد تھی۔ دو پہاڑوں کے درمیان آباد اس شہر میںعموماً بارش کے دنوں میں پہاڑوں سے آنے والا سیلابی پانی تباہی و بربادی مچادیا کرتا تھا۔ چناںچہ شہر کے بادشاہوں، خاص طور پر ملکہ بلقیس نے ان دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مضبوط و مستحکم بند تعمیر کروایا اور بارش اور سیلاب کے پانی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان روک کر پانی کا ایک عظیم الشّان ذخیرہ بنادیا۔

جس کے بعد یہاں سے پورے شہر کو پینے اور زراعت و باغ بانی کے لیے وافر مقدار میں پانی مہیّا کیا جانے لگا، جو پورے شہر میں شادابی و خوش حالی کا باعث بنا، لیکن جب قومِ سبا نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی، تو اللہ تعالیٰ نے پانی کے اس عظیم الشّان بند پر اندھے چوہے مسلّط کردیئے، جنہوں نے بند کی بنیادوں کو کھوکھلا اور کم زور کردیا۔ چناںچہ بارش کے دنوں میں جب سیلاب آیا، تو کم زور بنیادوں کی وجہ سے بند ٹوٹ گیا اور پانی کے اس عظیم ذخیرے نے پورے شہر مآرب کو تباہ و برباد کردیا۔ (معارف القرآن، 281/7)۔

معروف مذہبی اسکالر، ڈاکٹر اسرار احمد تحریر فرماتے ہیں کہ ’’قومِ سبا‘‘ پر سیلاب کے عذاب کا واقعہ حضورﷺ کی ولادتِ باسعادت سے تقریباً سوا سو سال قبل، یعنی 450 عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، جو لوگ زندہ بچے، وہ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ قبیلۂ اوس اور خزرج نے یثرب کی جانب نقل مکانی کی۔‘‘ (بیان القرآن، 73/6)۔ اوس اور خزرج کا تعلق یمن کے مشہور قبیلے ’’قحطان‘‘ سے تھا۔ قحطان یمنی باشندوں کا جدّاعلیٰ ہے۔ ابنِ ہشام لکھتے ہیں کہ تمام کے تمام عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قحطان کی اولاد میں سے ہیں۔ یمن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ قحطان حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ’’ابوالعرب‘‘ کہا جاتا ہے۔ (سیرت ابنِ ہشام، 1/11)

قبیلۂ اوس و خزرج کی یثرب آمد: اوس اور خزرج دو بھائی تھے۔ جب ان دونوں بھائیوں کی نسل بڑھی، تو انہوں نے اپنے ناموں سے الگ الگ قبیلے بنالیے۔ مآرب کی تباہی کے بعد دونوں قبائل یمن سے ہجرت کرکے یثرب پہنچے، جہاں اُن کا واسطہ صاحبِ ثروت یہودیوں سے پڑا۔ مال و دولت کی فراوانی نے انہیں عیاش، ظالم اور سفّاک بنادیا تھا۔ اوس و خزرج، یثرب کے غیر آباد علاقے میں رہائش پذیر تھے۔

اُدھر یہود کو ایسے افراد کی ضرورت تھی، جنھیں وہ اپنے زرعی کاموں میں استعمال کرسکیں، چناں چہ یہود نے اُن قبائل کے لوگوں کو کاشت کاری کے لیے استعمال کیا۔ اوس و خزرج کے لوگوں نے ان کے باغات اور زراعت کے فروغ کے لیے محنت اور جاںفشانی سے کام کیا، جس کی بِنا پر ان کے مالی حالات بھی بہتر ہونے شروع ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یثرب سے شام تک تمام سرسبز و شاداب بستیوں اور نخلستانوں پر یہود کا قبضہ تھا۔

خیبر، تبوک القریٰ، حجر، مدین اور تیما کے نخلستان، باغات اور کھیت و کھلیان پر یہود قابض تھے اور تجارت، زرگری، سودی لین دین سمیت عرب کی پوری معیشت اُن کے ہاتھوں میں تھی۔ (ارض القرآن، 315,314)۔ یہودیوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے بچّوں کو توریت کی تعلیم لازمی دلواتے تھے۔ دین سے بہرہ وَر کرنے کے لیے انہوں نے پورے یثرب میں ’’بیت المدارس‘‘ کے نام سے علمی درس گاہوں کا ایک جال بچھادیا تھا۔ تاہم، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس تعلیم کے برعکس عمل کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، جلد2،حدیث،1027)۔

یثرب کا اقتدار اوس و خزرج کے حوالے: مال و دولت کی کثرت نے یہودیوں کو عیّاش و بدکار بنا دیا تھا۔ اوس و خزرج کی خواتین کی عزّت و ناموس سے کھیلنا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ فحاشی و عریانی عام ہوچکی تھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے تھے۔ ایسے میں اوس و خزرج کے سردار مالک بن عجلان نے اپنے عم زاد، ملکِ غسان کے بادشاہ ابو جبیلہ بن جفتہ بن عمرو سے مدد طلب کی۔ ’’غسان‘‘ یثرب اور شام کے درمیان ایک ریاست تھی۔ شاہِ غسان نے اپنے عم زاد کی مدد کے لیے جنگجوئوں کا ایک بڑا لشکر یثرب کی جانب روانہ کیا۔ اس لشکر نے یہود کے تمام سرکردہ افراد کو قتل کرکے چند ہی دنوں میں یہود کی شان و شوکت خاک میں ملانے کےبعد یثرب کا اقتدار اوس و خزرج کے حوالے کردیا۔ (مدینۂ منورہ، ماضی حال کے آئینے میں، احمد محمد شعبان، صفحہ15)۔

اوس و خزرج کا عروج، جنگِ بعاث: بعاث، مدینۂ منورہ کے قریب بنی قریظہ کے علاقے میں ایک جگہ تھی، جہاں قبیلۂ اوس اور خزرج ایک عرصے تک امن و سکون، اتحاد و اتفاق سے زندگی گزار رہے تھے، لیکن یہودی اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ ناشکری، نافرمانی، بدعہدی، منافقت، دھوکا دہی، حسد، جھوٹ، فریب، فساد جیسی برائیاں اُن کے خمیر میں شامل تھیں۔ بظاہر خاموش طبع اور پُرامن تھے، لیکن باطن میں خباثت بھری تھی۔ انہیں اوس و خزرج کا اتحاد اور یثرب میں امن و سُکھ چین ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔

بالآخر وہ اپنی کوششوں میں کام یاب ہوئے اور اوس و خزرج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرواکر جنگ کے ایسے شعلے بھڑکائے کہ اوس و خزرج کے تقریباً تمام نام وَر سردار اس میںلڑبھڑ کر مرگئے۔ دونوں قبائل کے درمیان یہ خوںریز جنگ ایک سو بیس سال تک چلتی رہی۔ جس نے دونوں خاندانوں کو تباہ و برباد کردیا۔ دونوں طرف کا کوئی سرکردہ فرد زندہ نہ بچا۔ (سیرتِ سرورِ عالمؐ، 3/89)۔

ایمان کی خوشبو یثرب کی فضائوں میں: حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ نے جب ہجرت فرمائی تو اُس وقت انصار میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔ تمام سردار قتل ہوچکے تھے۔ اس میں اللہ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ انصار اسلام قبول کرلیں۔‘‘ (صحیح بخاری، 3930)۔ بعثت کے گیارہویں سال ایک تاریک رات میں اللہ کے نبیﷺ وادی عقبہ کی گھاٹی کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ ؐ کو باتوں کی آواز آئی۔ آپؐ اُن کے پاس پہنچے اور دریافت کیا کہ ’’کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم یثرب سے آئے ہیں اور قبیلۂ خزرج کے لوگ ہیں۔‘‘

حضورﷺ اُن پاس ہی بیٹھ گئے، انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا اور قرآن کریم کی تلاوت فرمائی۔ یہ لوگ تعداد میں چھے تھے۔ اللہ کا کلام سُن کر آپس میں بولے ’’ارے یہ تو وہی نبیؐ ہیں۔ جن کی آمد کا یہودی شدّت سے انتظار کر رہے ہیں اور جن کا تکیہ ٔ کلام ہی یہ ہے کہ ’’جس کا دل چاہے، ہم پر مظالم ڈھالے، ہمارا نبیؐ آنے والا ہے۔ ہم ان سب ظالموں سے بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم پر سبقت لے جائیں؟‘‘

اس کے بعد انہوں نے آنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کر کے اسلام قبول کرلیا اور یثرب واپس جا کر لوگوں کواسلام کی آگاہی دینی شروع کردی۔ (تاریخِ اسلام، 1/113)۔ پھر ذی الحجہ 12 نبویؐ بمطابق جولائی 621 عیسوی حج کے موقعے پر یثرب سے 12افراد مکّہ آئے اور آنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ حج کے اختتام پر نبی اکرمﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو پہلا سفیر بناکر ان لوگوں کے ساتھ یثرب روانہ کیا، تاکہ وہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں۔ (صحیح بخاری، 3924,3925, 4941 )۔یہ ملاقات بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔ (جاری ہے)