اقتدار کی جنگ، نیا موڑ

November 29, 2022

ملک میں اقتدار کیلئے جاری رسہ کشی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے نہ تو پی ٹی آئی کرسی کے بغیر چند ماہ مزید صبر کر سکتی ہے نہ وفاق میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت مقررہ آئینی مدت سے پہلے الیکشن کرانے کیلئے تیار ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی مصلحتیں اور اپنے اپنے مفادات ہیں۔ لانگ مارچ کے اختتام پر عمران خان کے اس اعلان کے بعد کہ پی ٹی آئی اسمبلیوں سے استعفے دے گی جس سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی، پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ دونوں صوبوں میں عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کر دی جائیں یا پی ٹی آئی کے ارکان کو توڑ لیا جائے تاکہ ان کی اسمبلیاں توڑی نہ جا سکیں جبکہ پی ٹی آئی کا سارا زور اپنے ارکان کو یک جا رکھنے اور ان سے استعفے دلوانے پر ہے تاکہ پی ٹی آئی کے ان دونوں اکثریتی صوبوں میں اسمبلیاں ٹوٹنے سے بحران پیدا ہو اور حکومت الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے۔ ضد اور بے صبری کے اس ماحول میں ملک کے مفادات پس منظر میں جاتے نظر آ رہے ہیں۔ عام انتخابات میں چند مہینے تاخیر سے نہ پی ٹی آئی پر قیامت گزرے گی اور نہ پی ڈی ایم کیلئے کوئی سانحہ رونماہو گا مگر آئین اور اخلاقیات کے تقاضےکچھ بھی ہوں، سیاست میں یہ سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ فریقین نے ایک دوسرے کو زک پہنچانے کیلئے کمر کس لی ہے۔ اپنے اپنے پارلیمانی اجلاس بلا لئے ہیں جن میں اپنی اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دی جائے گی۔ سابق صدر آصف زرداری کو پی ڈی ایم نے پنجاب اسمبلی سنبھالنے کا اختیار دیا ہے۔ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے ان کی حکومت ختم کر دیں یا اسمبلی توڑنے کا راستہ روک دیں۔ بظاہر اس کیلئے حالات بھی سازگار بتائے جاتے ہیں۔ یہی صورتحال خیبرپختونخوا اسمبلی کے بارے میں پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ شاید پی ٹی آئی ارکان اسمبلیاں توڑنے کی مزاحمت کریں گے پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ موجودہ سیاسی بحران شفاف الیکشن کے ذریعے حل ہو جائے گا جبکہ آثار یہ بتا رہے ہیں کہ آئینی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر کرائے جانے والے انتخابات سے بحران مزید سنگین ہو گا اور جو بھی فریق ہارے گا وہ حکومت کو آسانی سے نہیں چلنے دے گا۔ ایسے میں بہتری اسی میں ہے کہ الیکشن کیلئے چند مہینے مزید انتظار کر لیا جائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بے یقینی کی اس فضا میں ایک بار پھر دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات 2023ء اگست کے بعد مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت میں پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیوں کی نمائندگی ہے۔ مبصرین ایسی صورتحال میں پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ ضد اور انا کی اس سیاسی جنگ میں معاملات پھر عدالتوں میں جا سکتے ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں قومی مسائل کو باہمی مذاکرات اور جمہوری تقاضوں کے مطابق حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ عدالتیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ سیاستدان سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کیا کریں تاکہ عدالتوں کا قیمتی وقت عام مقدمات نمٹانے کے کام آ سکے۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ متنازع امور آپس کی گفت و شنید سے یکسو کریں اور ضد اور انا کو حائل نہ ہونے دیں۔ مہذب جمہوری ملکوں میں وہ کچھ نہیں ہوتا جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔سیاست میں جہاں اپنی بات منوائی جاتی ہے وہاں دوسرے کی جائز بات مانی بھی جاتی ہے۔ کوئی شخص یہ سوچے کہ وہی عقل کل ہے۔ غیرمنطقی طرز فکر ہے۔ ایسا آمریت میں ہوتا ہے۔ جمہوریت میں نہیں ہوتا۔ سیاستدانوں کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے مل جل کر اور باہمی آویزشوں اور مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک اور قوم کیلئے مثبت طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔