اسلام آباد ہائیکورٹ :نور مقدم قتل کیس، سزا کیخلاف اپیل پر سماعت

November 30, 2022

نور مقدم قتل کیس کے مجرموں کی سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔

نور مقدم کے والد شوکت مقدم کی مجرموں کی سزاؤں میں اضافے اور بریت کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اپیلوں کو یکجا کرکے سماعت کی، مدعی مقدمہ شوکت مقدم اپنے وکیل شاہ خاور کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ ظاہر جعفر کی دماغی حالت کبھی بھی چیک نہیں کی گئی۔

اس پر عدالت نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس کا میڈیکل چیک اپ نہیں کیا گیا؟ ویسے آپ کو کس نے ہائر کیا ہے؟

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ظاہر جعفر کے والد جیل گئے اور وکالت نامے پر دستخط کروائے۔

اس پر عدالت نے جواب دیا کہ مجرم اگر وکیل ہائر کرسکتا ہے تو وہ کیسے اس قسم کے اعتراضات اٹھا سکتا ہے؟ اگر کورٹ نے جیل سے میڈیکل چیک اپ کرایا تو اس کے بعد آپ نے کوئی اعتراض اٹھایا؟

مدعی مقدمہ کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ان کی درخواست ٹرائل کورٹ سے خارج ہوئی لیکن اس کو چیلنج نہیں کیا گیا۔

اس پر عدالت نے میڈیکل بورڈ بنانے کے حوالے سے ظاہر جعفر کی درخواست کا آرڈر پڑھنے کی ہدایت کی، اس پر وکیل نے کہا کہ پیپر بکس میں نہ درخواست، نہ رپورٹ اور نہ ہی کوئی تفصیلی آرڈر ہے۔

عدالت نے مدعی مقدمہ کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی کاپی ہے؟ دوران سماعت میڈیکل کے حوالے سے ظاہر جعفر کی درخواست اور تفصیلی آرڈر بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ 12 میں سے 9 ملزمان بری ہونے پر 75 فیصد کیس ہی غلط ثابت ہوگیا، مجرم کی کبھی بھی دماغی حالت کا چیک اپ نہیں کیا گیا، جو اس کا بنیادی حق ہے۔

شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ مجرم کی جانب سے ذہنی معائنے کی درخواست دائرکی گئی، جو خارج ہوگئی تھی۔

عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے تفصیلی آرڈر کیا ہوا ہے، اس میں وجوہات بھی لکھی ہیں، 13 گواہیاں ہوچکی تھیں، 6 گواہ رہتے تھے تو آپ اس کو چیلنج کرسکتے تھے۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے ملزمان کی طبی حالت کے سے متعلق سپریم کورٹکا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس پر مدعی مقدمہ کے وکیل نے کہا کہ سب سے پہلے ٹرائل کورٹ نے طے کرنا ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی یہی ہے۔

عدالت نے وکیل عثمان کھوسہ سے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر میں کچھ دیر تھی؟

وکیل نے کہا کہ 20 جولائی کو رات ساڑھے 11 بجے مقدمہ درج کیا گیا، ایف آئی آر سے پہلے یہ سارے اکٹھے ہوکر آپس میں مشورہ کرتے رہے۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے مزید کہا کہ اس کیس میں جو شکوک و شبہات ہیں اس کا فائدہ مجھے دیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کرمنل لاء میں ہر ججمنٹ کا اپنا بیک گراؤنڈ ہوتا ہے۔