ٹیکسٹائل انڈسٹری شدید بحران کا شکار

December 03, 2022

ٹیکسٹائل برآمدات میں گزشتہ چند سال کے دوران ہونے والے ریکارڈ اضافے کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک مرتبہ پھر شدید بحران کاشکار ہو گئی ہے۔ اس بحران کی بڑی وجہ ایکسپورٹرز کو مختلف ٹیکسوں کے ریفنڈز کی مد میں 345 ارب روپے کی عدم ادائیگی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے 45 ارب روپے کے ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز (آر پی اوز) کی ادائیگی تاخیر کا شکار ہے اور اس رقم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چھ ماہ کے دوران سیلز ٹیکس کی مد میں واجب الاادا رقم 15 ارب روپے سے بڑھ کر 55 ارب روپے ہو گئی ہے جبکہ جولائی 2019ء سے واجب الادا سیلز ٹیکس کی مجموعی رقم 200 ارب روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں انکم ٹیکس /کریڈٹ کی مد میں 100ارب روپے جبکہ ڈرابیک آف لوکل ٹیکسز اینڈ لویز (ڈی ایل ٹی ایل) کی مد میں 45ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ سیلاب کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی اپنے بنیادی خام مال کپاس کی قلت اور عالمی منڈی میں جاری مندی کے باعث برآمدی آرڈرز میں کمی کے سبب مشکلات کا شکار ہے ایسے میں ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر نے بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

ان حالات میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کیلئے ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر سے پیداواری عمل جاری رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ خیال رہے کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی میں بلاوجہ اور غیر ضروری تاخیر ایک مستقل مسئلہ بنتی جا رہی ہے حالانکہ سیلز ٹیکس ایکٹ 2006 کی شق 36F کے مطابق ایسا سیلز ٹیکس ریفنڈ کلیم جس کا آر پی او جاری ہو چکا ہو اس کی ادائیگی 72 گھنٹوں میں ہونا ضروری ہے۔ اس کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس شق پر عملدرآمد سے قاصر نظر آ رہا ہے جس سے ایک طرف واجب الادا ریفنڈز کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سرمائے کی قلت کے باعث ایکسپورٹرز کی مالی مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے 'زیرو ریٹنگ ' کی سہولت ختم کر کے 17فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کے غیر دانشمندانہ فیصلے سے اربوں روپے کا سرمایہ پیداواری سرگرمیوں میں لگنے کی بجائے سیلز ٹیکس نظام کی نذر ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ریفنڈز کی واپسی کیلئے طویل اور پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس سے انڈسٹری کی توانائیاں ایک غیر پیداواری عمل میں ضائع ہو رہی ہیں۔

اس صورتحال میں ٹیکسٹائل برآمدات پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ ختم کئے بغیر ایکسپورٹ انڈسٹری کی بقاممکن نہیں۔ اس لئے برآمد کنندگان کی لیکویڈیٹی پوزیشن اور عالمی منڈی میں مسابقت کو بہتر بنانے اور دھوکہ دہی و اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے’زیرو ریٹنگ‘ کی بحالی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایکسپورٹرز سے پہلے ٹیکس ادا کرنے کا مطالبہ کرنا پھر بعد میں ریفنڈز کے حصول کیلئے طویل انتظار کروانے کی پالیسی برآمدات میں اضافے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر اس معاملے میں بہتری کیلئےفوری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات مختلف ٹیکسوں، لیویز اور سرچارجز کی وجہ سے عالمی منڈی میں علاقائی حریفوں کے مقابلے میں 10 سے 15 فیصد مہنگی ہوجائیں گی۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عالمی منڈی میں مندی کے باعث دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں اور برآمدی آرڈرز میں بھی کمی آئی ہے۔ اس سے جہاں ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی آئی ہے وہیں ایکسپورٹرز کو بھی مالی مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کی حکومت ان غیر معمولی حالات سے نمٹنے کیلئے انڈسٹری کی مدد کرنے کی بجائے ان کی مشکلات سے بے نیاز نظر آ رہی ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف پاکستان میں زرمبادلہ کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی میں بھی یہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر معاشی مسائل سے نجات کیلئے مشترکہ حکمت عملی بناتے لیکن تاحال سیاسی محاذ آرائی میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی ۔ اسے حالات کا جبر کہہ لیں یا قومی مفاد کا تقاضا، حکومت کو اس اہم مسئلے کے فوری حل کیلئے ریفنڈز کی جلد سے جلد ادائیگی کے ساتھ ساتھ ’زیرو ریٹنگ‘ کی سہولت فوری بحالی کر دینی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یارن کی برآمدات پر چھ ماہ کیلئے مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کےعلاوہ بھارت سے کپاس کی درآمد پر عائد پابندی فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش خام مال کی قلت کا فوری خاتمہ ممکن ہو۔

علاوہ ازیں برآمدات کی قدر بڑھانےکیلئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کیلئے ایسے ماحول کی ضرورت ہو گی جو برآمدی صنعتوں کو نئے عمل کے ذریعے معیار کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے سہولت فراہم کرے تاکہ نئی مصنوعات تیار کرنے کے ساتھ ساتھ نئی منڈیوں میں جگہ بنائی جا سکی۔ اس سلسلے میں قومی قیادت کو برآمدات پر فوکس کر کے اقتصادی ترقی کو ہدف بنانا چاہئے۔ یہ اقدامات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ ٹیکسٹائل سیکٹر نے گزشتہ دو، ڈھائی سال میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اپنی پیداواری استعداد بڑھانے کیلئے پچھلے کچھ سال میں نئے پلانٹس، مشینری اور اپ گریڈیشن کی مد میں پانچ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنے دور میں مسابقتی شرائط پر توانائی فراہم کر کے اور دیگر اقدامات کے ذریعے برآمدات میں اضافے کو ممکن بنایا تھا۔ اس پالیسی کو بھی مستقل بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کا سفر جاری رکھ کر معاشی استحکام کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)