نیاعسکری بیانیہ اور سیاست دان

December 03, 2022

نئے آرمی چیف کے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی بہت ساری افواہیں اپنی موت آپ مر گئیں۔دنیا کے بیشتر ممالک میں فوج کے سربراہ ریٹائر ہوتے ہیں اور نئے سربراہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں مگر ان ممالک میں ان خبروں کی ایسی تشہیر نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں بھی اس سے پہلے آرمی چیف کی تعیناتی پر اتنا شور غل نہیں مچتا تھا لیکن عمران خان نے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے میڈیا اور عوام کی ساری توجہ آرمی چیف کی تعیناتی اورنئے انتخابات کی تاریخ سے منسلک کر دی ۔ انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ موجودہ سیاسی قیادت کو نئی تقرری اختیار حاصل نہیں لہٰذا نئی منتخب حکومت کے آنے تک جنرل باجوہ کو توسیع دی جائے۔بہرحال عمران خان کی یہ خواہش کہ وہ نیا آرمی چیف مقرر کریں ، پوری نہ ہوسکی۔ آرمی چیف کی تعیناتی نے پچھلے ایک سال سے پاکستانی سماج کو ہلچل کی کیفیت میں رکھا ۔ اب سیاسی لیڈروں کو چاہئے کہ وہ آپس میں صلاح مشورہ کرکے ایسی قانون سازی کریں کہ جو بھی سب سے زیادہ سینئر جنرل ہو ، وہ آرمی چیف بن جائے تاکہ اس معاملے پر سیاست کرنے کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے۔

فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم شہد ا کے موقع پر اپنے خطاب میں فوج کی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا اور سیاست میں فوج کی مداخلت کو غیر آئینی قرار دیا ، موصوف نے واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ فوج مکمل طور پر سیاست اور ملکی معاملات سے غیر جانبدار ہوگئی ہے۔موصوف نے عمران خان کی سازش کے بیانیے کو جھوٹا قرار دیا اوران کی جانب سے ملٹری قیادت کے خلاف نا مناسب القاب کوملکی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے اپنی اصلاح شروع کر دی ہے، سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔مبصرین نے انکے سقوط ڈھاکہ کے بیان سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ حمودا لرحمان کمیشن کی رپورٹ انکے موقف کی تائید نہیں کرتی۔

جنرل باجوہ کا حالیہ بیان پاکستانی سیاست کیلئے بہت ہی مثبت قدم ہے اور امید ہے کہ فوج کے نئے سربراہ اس کی پاسداری کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کی جون 1948میں اسٹاف کالج میں کی گئی تقریر کی مکمل طور پر تائید کریں گے ۔جنرل باجوہ کے اس بیان کےبعد امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام بھی آئین اور قانون کی بالادستی کو اولین ترجیح قرار دے گا۔ نئے آرمی چیف کی نئی تعیناتی اور جنرل باجوہ کے خطاب کے بعد مبصرین اور دانشور امید کر رہے ہیں کہ ہمارے پچھتر سالہ داغ دار ماضی کے مقابلے میں ایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جہاں آئین کی بالادستی راسخ ہوگی اور سویلین سپرمیسی کا خواب پورا ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔پاکستان کا وفاق مضبوط ہوگا اورجبری گمشدہ افراد کا مسئلہ، جو وفاق کی جڑوں کو کمزور کر رہا ہے، کے موثر حل کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی بلوچ عورت یہ نہ کہہ سکے کہ اس کا شوہر بیس سال سے لاپتہ ہے اور یہ کہ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ بیوہ ہے یا شادی شدہ!ان حالات میں بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ سیاسی قیادت کو مذاکرات کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے تاکہ بلوچستان کے مسائل کا دیر پا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا کے اضلاع کے مسائل کو ترجیح دیتے ہوئے ایم این اے علی وزیرکی رہائی کی سبیل کی جائے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی بیخ کنی بھی لازمی ہے۔اگلے انتخابات نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس کے ادوار میں ہوں گے اور قوم کو پوری امید ہے کہ یہ الیکشن آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں منعقد ہونگے جس میں الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کے طور پر ابھرے گا۔

نئے حالات میں اگر پاکستانی فوج واقعی نیوٹرل ہوگی تو سیاستدانوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوگی ۔ پی ڈی ایم کی قیادت کو نئے حالات میں عمران خان کے ساتھ یکسو ہونے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ تمام سیاسی پارٹیاں انتخابات کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے ایک بہتر سماج کی طرف بڑھ سکیں۔

اس سے پہلے عمران خان نے لاہور سے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا جس میں جذباتی نعروں کے استعمال سے آرمی چیف کی تقرری پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ اس لانگ مارچ نے عوام کی توجہ انکے اصل مسائل سے ہٹا دی ۔ان بدلتے حالات میں عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے لانگ مارچ کو ملتوی کریں اور آئندہ الیکشن آئین کے مطابق ہونے دیں۔عمران خان نے اپنے دور اقتدار اور اس کے بعد پاکستانی مسائل کا حل انسانی جذبات کو استعمال کر کے اپنے پاپولرازم کو تقویت دینے میں گزارا۔ وہ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ پاکستان میں موجود کرپشن اور وراثتی پارٹیوں کے خلاف انہی جذباتی نعروں کا استعمال اور اداروں کو اپنا مطیع بنا کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی تگ و دو میں لگے رہے۔

ان کا بیانیہ نئی روایتیں اور نئی اقدار کے احیا کی بجائے ایسے ہیروز پیدا کرنے کی کوشش ہے جو ہر اصول سے ماورا ہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ جمہوری اقدار کو آگےبڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔دانشور اور مبصرین امید کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ماضی کی روش ترک کرناہو گی تاکہ کسی نئی پارٹی اور گروہ کے سر پر دست شفقت نہ رکھا جائے کیونکہ پاکستان جیسے معاشرے میں ایسے گروہ اور شخصیات سماج میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لیتے ہیں کہ اس کا خمیازہ پورے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔