ایک استاد اور تین شاگردوں کی کہانی

December 05, 2022

حضرت علی ؓسے منسوب ایک قول ہے کہ ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘،پاکستان کی تاریخ کے ہر چوراہے پرباالعموم اوراقتدار کے ایوانو ں میں باالخصوص نصب ہونا چاہئے تاکہ کسی کم ظرف سے نیکی کرنے سے پہلے اس کے حسب نسب کا اندازہ کرنے کی روایت پڑ جائے۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے 26نومبر2016ء کو سنیارٹی لسٹ میں ساتویں نمبر پر موجود جنرل قمر جاوید باجوہ کو سپہ سالار بنا نے کا فیصلہ کیا۔بطور سربراہ حکومت یہ تعیناتی ان کے فرائض میں شامل تھی اور انہوں نے کسی پر احسان نہیں کیا لیکن جن دو شخصیات نے جنرل قمر باجوہ کو آرمی چیف بنوانے میں اہم کردار اداکیا،ان محسنوں کے ساتھ جنرل قمر باجوہ کے دور میں کیا سلوک ہوا،یہ کہانی بہت سبق آموز ہے۔ نوازشریف کو بتایا گیا کہ جب2014ء میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آبادمیں دھرنا دے رکھا تھا اور جنرل ظہیر الاسلام اس سازش کی سرپرستی کررہے تھے تو کورکمانڈر راولپنڈی جنرل قمر باجوہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی رہے ۔انہوں نے اپنا وزن حکومت کا تختہ اُلٹانے والوں کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔مگر یہ اکلوتی وجہ نہیں تھی۔جس طرح ضیاالحق بطور کورکمانڈر ملتان بہت عرصہ لابنگ کرتے رہے اور بھٹو کی گڈ بکس میں آنے کی کوشش کی ،اسی طرح قمر باجوہ بھی کئی برس سے خود کو جمہوریت پسند جرنیل کے روپ میں پیش کرکے سپہ سالار بننے کی تگ و دو کر رہے تھے۔سینیٹر عرفان صدیقی جنہیں جنوری 2016ء میں وزیراعظم کا مشیر مقرر کیا گیا ،یہ بطور معلم فیڈرل گورنمنٹ سرسید کالج راولپنڈی میں پڑھاتے رہے ہیں۔ان کے ایک شاگرد فواد حسن فواد وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری تھے ۔جب جنرل قمر باجوہ کمانڈر ٹین کور تھے تو ایئر پورٹ پر ان کی عرفان صدیقی سے ملاقات ہوگئی۔ جنرل قمر باجوہ نہایت ادب سے جھک کرملے اور یاد دلایا کہ میں FG سرسید کالج میں آپ کا شاگرد تھا۔

جنرل قمر باجوہ نے آنے والے دنوں میں یہ میل جول مزید بڑھایا ۔باالخصوص عرفان صدیقی سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا چلاگیا۔وہ جمہوریت پسندانہ سوچ کا اظہار کرتے،فوج کی عمومی انڈین سینٹرک سوچ کے برعکس ،بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کرتے۔جب نئے سپہ سالار کی تعیناتی کا وقت قریب آیا تو جنرل قمر باجوہ نے ایک مودب شاگرد کی طرح دست بستہ گزارش کی کہ اگر انہیں آرمی چیف لگادیا جائے تووہ ہر گز مایوس نہیں کریں گے۔عرفان صدیقی نے جنرل قمر باجوہ کا مقدمہ بہترین انداز میں وزیراعظم کے سامنے پیش کیا۔پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے بھی یہی رائے دی کہ جنرل قمر باجوہ نئے سپہ سالار کے طور پر بہترین انتخاب ہوں گے۔

نوازشریف سب کے مشورے اور تجاویز سنتے رہے مگر آخری وقت تک تجسس کی فضا برقرار رہی ۔ وزیراعظم26نومبر 2016ء کو ترکمانستان سے واپس لوٹے تو پرائم منسٹر آفس میں وزارت دفاع کے توسط سے موصول ہونے والی سمری منتظر تھی۔انہوں نے پرنسپل سیکریٹری کو کہا کہ نوٹیفکیشن تیار کریں مگر نام کی جگہ خالی چھوڑ دیں۔وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کو پیغام ملا کہ پرائم منسٹر صاحب فوری طور پر آپ سے ملنا چاہتے ہیں ،عرفان صدیقی آئے تو فواد حسن فواد نے استقبال کیا۔آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال ہوا تو فواد نے بتایا ،سر! کچھ کہا نہیں جا سکتا شاید کورکمانڈر بہاولپور جاوید اقبال رمدے کا نام فائنل ہوا ہے۔جب وزیراعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا،عرفان صدیقی صاحب! آپ کے مشورے پر میں نے جنرل قمر باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔آپ خود انہیں ٹیلیفون کرکے یہ خوشخبری سنائیں۔عرفان صدیقی نے ٹیلیفون تو نہ کیا مگر جنرل قمر باجوہ کو یہ بات بہت اچھی طرح سے معلوم تھی کہ ان کی تعیناتی میں عرفان صدیقی صاحب نے بہت کلیدی کردا ر ادا کیا ہے۔

عرفان صدیقی صاحب دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی طاقتور ترین شخصیت بن گئے۔وہ وزیراعظم کے مشیر تھے ،ان کے ایک شاگرد وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری تھے تو دوسرے شاگرد عساکر پاکستان کے سپہ سالار۔اسے فلک کج رفتار کی غلط بخشی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جن دو شخصیات نے آرمی چیف بنوایا ،ان دونوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔جنرل قمر باجوہ کے استاد عرفان صدیقی کو 26جولائی2019ء کوکرایہ داری کے بوگس مقدمے میں گرفتار کرکے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کے ساتھ قصوری چکی میں بند کردیا گیا تو فواد حسن فواد کو بے بنیاد مقدمات کے تحت19ماہ تک قید کاٹنا پڑی۔بعد ازاں نوازشریف نے عرفان صدیقی صاحب سے گلہ کیاکہ دیکھیں آپ کے شاگرد نے کیا کیا؟میاں نوازشریف نے کئی بار یہ بات کہی کہ اگر عرفان صدیقی نہ کہتے تو وہ کبھی جنرل قمر باجوہ کو آرمی چیف نہ بناتے۔ اس گرفتاری کا ذمہ دار اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو سمجھا جاتا رہا لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ عرفان صدیقی کو ان کے شاگرد جنرل قمر باجوہ کے حکم پر حراست میں لیا گیاورنہ ملک کی طاقتور ترین شخصیت کے استاد پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کون کرسکتا تھا؟

موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی عرفان صدیقی کے شاگرد ہیں، ان دونوں کی ملاقاتیں رہی ہیں مگر انہوں نے کبھی یہ فرمائش نہیں کی مجھے آرمی چیف لگوادیں۔عاصم منیر ہوں یافواد حسن فواد، دونوں بطوراستاد عرفان صدیقی صاحب کا بہت احترام کرتے ہیں مگر جنرل باجوہ نے استاد شاگرد کے تعلق کو ہی رسوا کر ڈالا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حصے میں رسوائی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہ آیا۔ سچ کہتے ہیں باادب بانصیب ،بے ادب بےنصیب۔