پاکستان کو ڈیفالٹ رسک ہے یا نہیں

December 05, 2022

گزشتہ دنوں میں نے اپنے کالم میں پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا جو نومبر کے پہلے ہفتے میں بڑھ کر 53 فیصد تک پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے ڈالر بانڈز کی قیمت 60سے 65فیصد تک کم ہوگئی ہے اور 2024ء اور 2036ء کے حکومتی بانڈز نچلی ترین سطح پر آچکے ہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام، کمزور معاشی صورتحال، زرمبادلہ کے ذخائر، ترسیلات زر میں 9فیصد کمی، بیرونی سرمایہ کاری اور روپے کی قدر میں کمی، رواں سال جولائی سے اکتوبر2.8ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ اور 11.5ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے دبائو، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی پاکستان کیلئے منفی ریٹنگ، عالمی کساد بازاری سے ملکی ایکسپورٹس میں کمی اور 30فیصد افراط زر یعنی مہنگائی کی وجہ سے پاکستانی بانڈز کا آئندہ 5سال میں کریڈٹ ڈیفالٹ سوائپ (CDS) رسک بڑھ کر ریکارڈ92.5فیصد تک پہنچ گیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے جس پر میں نے حال ہی میں کراچی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

قارئین! آسان لفظوں میں کریڈٹ ڈیفالٹ سوائپ حکومتی بانڈز میں سرمایہ کار کو انشورنس کور فراہم کرتا ہے اور بانڈز کے ڈیفالٹ کی صورت میں سرمایہ کار کو اپنی رقم انشورنس سے مل جاتی ہے ۔ پاکستان کے معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے CDS رسک پریمیم میں اضافہ ہوتا گیا جو عالمی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز میں سرمایہ کاروں کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے ۔ فروری 2020ء میں کورونا سے پہلے پاکستانی بانڈز کا ڈیفالٹ رسک 5 سے 6 فیصد تھا جو آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 30فیصد ہوگیا تھا۔ آئی ایم ایف کے 6.5ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی اور 1.2ارب ڈالر کی قسط ملنے اور دیگر مالیاتی اداروں ورلڈبینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 6.5 ارب ڈالر فنڈز کے اعلان کے بعد پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی آئی لیکن سیلاب کے 30ارب ڈالر کے نقصانات، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ کمی جو 7.5 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح تک آگئے ہیں اور بمشکل ڈیڑھ مہینے کے امپورٹ بل کے برابر ہیں جس میں بینکوں کے 5.5ارب ڈالر کے ڈپازٹس شامل نہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد ہمیں دیگر مالیاتی اداروں سے 6.5 ارب ڈالر کے فنڈز وعدے کے مطابق نہیں مل سکے اور قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہورہی ہے جس کے باعث پاکستانی روپیہ انٹربینک میں 225 روپے کی سطح پر آگیا ہے۔ جاپانی نمارا بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو ان 7ممالک کی لسٹ میں رکھا ہے جو اس وقت کرنسی کے خطرناک بحران سے دوچار ہیں۔ان ممالک میں رومانیہ، مصر، سری لنکا، چیک ری پبلک، ہنگری اور پاکستان شامل ہیں۔پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 42فیصد قرضے کنسورشیم ممالک، 40 فیصد باہمی ممالک، 7 فیصد عالمی بانڈز مارکیٹ اور 7 فیصد کمرشل بینکوں کے ہیں اور رواں مالی سال 2022-23ء میں پاکستان کو 32 سے 34 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستان نے27ارب ڈالر کے قرضے جس میں چین کے 23ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں، کی ری شیڈولنگ کی درخواست کی ہے جبکہ 2023ء میں پاکستان کو دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے 22.8ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے جس میں چین، یو اے ای اور سعودی عرب کے سافٹ ڈپازٹ بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 1.5 ارب ڈالر کے فنڈز اسٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں جمع کرادیئے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو معمولی سہارا ملا۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح 80 فیصد ہوگئی ہے جسے 2027 تک کم کرکے ہمیں 60 فیصد تک لانا ہوگا کیونکہ اس سے زیادہ قرضوں اور سود کا بوجھ زیادہ سے زیادہ قرضے لینے کی حد کا قانون FRDLA اور قومی خزانہ برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیں آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد کرکے آئی ایم ایف کی مکمل سپورٹ حاصل کرنا ہوگی تاکہ دیگر مالیاتی ادارے ہمیں مطلوبہ فنڈز فراہم کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیکس وصولی کا دائرہ بڑھانے اور توانائی کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوںپر اصلاحات لانا ہوگی تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول پیدا ہوسکے۔

میرے نزدیک پاکستان کی معاشی صورتحال ابتر ہونے کی وجوہات میں سب سے بڑاعامل ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے جس نے پاکستانی بانڈز کا انشورنس پریمیم خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان آئندہ ماہ ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی تو کرلے گا لیکن اس کے بعد کی صورتحال بہت خطرناک ہے۔ بینکوں نے نئی ایل سی کھولنا روک دی ہیں کیونکہ ڈالر کی کمی سے بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق حکومت کے موجودہ ٹیکس اہداف پورے نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے قرضے کی 1.2 ارب ڈالر کی نئی قسط روک لی ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی پاکستان کے ڈیفالٹ رسک کو خطرناک حد تک قرار دیا ہے جبکہ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک نے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو مسترد کرتے ہوئے 5 دسمبر 2022ء کو ایک ارب ڈالر کے حکومتی بانڈز کی ادائیگی کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے عالمی بانڈز مارکیٹ میں پاکستان پر اعتماد کسی حد تک بحال ہوگا۔ میرے نزدیک بھی پاکستان کا ڈیفالٹ رسک پریمیم میں اضافہ ایک تکنیکی معاملہ ہے جسے پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے نہیں جوڑا جاسکتا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات خراب ہیں اور عالمی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز پر CDS رسک پریمیم کا 6 فیصد سے 30 فیصد، پھر 52فیصد اور اب 92فیصد ہونا ہماری معاشی تنزلی کو ظاہر کرتا ہے۔