عالمی اردو کانفرنس کا پیغام

December 05, 2022

پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ہر حوالے سے وسیع تر مقاصد کی عکاسی کرتا ہوا دکھائی دیا۔ادب کے تمام شاہسواروں کو خبر ہے ،ہمارے تعارف کے خانے میں تنگ نظری، جہالت، تعصب، فکری تنزلی اور عدم برداشت جیسے شر انگیز لفظ بڑھتے جارہے ہیں، ہم کو اتنی غلاظتوں کے درمیان سانس لینا اور تشخص برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔تمام اعلیٰ اقدار ہماری ہٹ دھرمی اور بے توجہی کے باعث سانسیں گن رہی ہیں، اس امید پر کہ انھیں محبت اور اپنائیت کا وینٹی لیٹر مہیا ہو جائے تو وہ پھر چانن بکھیرنا شروع کر دیں۔اردو کانفرنس مل بیٹھ کر دلوں، قدروں اور سوچ کو اجالنے کے عمل کا عزم صمیم ہے۔ وجود میں خیر کی قوتوں کو فعال کرنے کا اعادہ کیا گیااسٹیج پر علمی، ادبی اور ثقافتی شخصیات کے درمیان وزیر اعلیٰ سندھ موجود تھے۔ شکیل خان نے ہر بار کی طرح سورہ فاتحہ کی تلاوت کی۔ حالانکہ انھیں سورہ اخلاص اور سورہ کوثر بھی مکمل ازبر ہیں۔ یہ بھی کانفرنس کی ہمہ گیری اور جدت کے ساتھ سفر کا اشارہ ہے کہ ڈاکٹر ایلکس بیلم نے انگریزی میں مقالہ پیش کیا اور پاکستان میں بولی جانے والی مادری زبانوں اور منفردو رنگارنگ کلچر کو سراہتے ہوئے اسے پاکستان کی طاقت کہا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نے اپنے کلیدی مقالے میں ایسی فضا قائم کی کہ ہر شخص دم بخود رہ گیا۔ ان کا ہر جملہ خوبصورتی کا احساس لئے ہوئے تھا۔موجودہ منظر نامے میں ہمارے بھٹکتے جذباتی رویوں اور کھوکھلے دعووں کو کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے، پر بحث کی۔ان کا مقالہ ادب، فلسفہ، نفسیات اور تصوف کی کرنوں سے معمور تھا۔ ہر جملہ ایک مضمون کا متحمل تھا۔ احمد شاہ ایک کرم یافتہ انسان ہیں کیوں کہ اتنے بڑے کام کرنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہر طرح کی منصوبہ بندی کے ساتھ جب تک خدا کا خاص کرم نہ ہو، معاملات سلجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ وجود کی طاقت اور ذہن کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جب تک ایک ان دیکھی طاقت کا سائبان انسان کے ہمراہ نہ ہو، دو قدم چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ رٹے سے حافظہ اتنا تیز ہو چکا ہے کہ انہوں نے ایک ہی سانس میں کئی لائنوں میں بیٹھے ہوئے سینکڑوں ادیبوں کے نام لے کر انہیں خوش آمدید کہا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صاحب جب شدید ہلکے پھلکے انداز میں تقریر کر رہے تھے۔ ان کی تقریر کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ سندھ تہذیب و ثقافت اور ادب پروری میں پاکستان کا نمبر ون صوبہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ نے اپنے صوفیاء کی زبان اور ان کے پیغام سے کبھی تعلق منقطع نہیں کیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے کارنامے گنواتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت نے بھی سندھ کی اسی تہذیبی و ادبی روایت کو پورے ملک میں پروان چڑھایا۔ ملک میں ادبی و ثقافتی خدمات سرانجام دینے والے تمام بڑے ادارے ذوالفقار علی بھٹو کے قائم کئے ہوئے ہیں۔ بہرحال پنجاب میں بھی ادب و ثقافت کے لئے ادارے بہت متحرک ہیں اور بہت کام ہو رہا ہے۔ ایسا کام ہمیں بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی میں کم کم ہی دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بات ماننے میں بالکل مضائقہ نہیں کہ اردو کانفرنس جتنا بڑا میلہ کسی دوسرے صوبے یا شہر کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔ یہ وہ واحد کانفرنس ہے جس میں اتنے ادیب آئےاور اس کے اتنے سیشنز ہوئے ۔یہ سندھ کا، کراچی کا اور احمد شاہ کا کارنامہ ہے۔

یہ وہ کانفرنس ہے جس کا ہر سال ہم انتظار کرتے ہیں کیونکہ بہت سارے ادیبوں، شاعروں ، علم والوں سے ہمارا رابطہ، مکالمہ، آمنا سامنا یہیں ہوتا ہے حتیٰ کہ ایک ہی صوبے میں رہنے والے لوگوں سے بھی ملاقات اکثر کراچی کانفرنس میں ہی ہوتی ہے۔ شاید ہی زبان و ادب، صحافت، فنون کا کوئی شعبہ ہو جس پر اس کانفرنس میں بات نہ ہوئی ہو۔ وہ لوگ جو علم اور ادب کے آسمان کے درخشاں ستارے ہیں، جن کی ایک جھلک دیکھنے کو، جن سے ایک جملہ سننے کو لوگ ترستے ہیں وہ سب یہاں موجود ہوتے ہیں اور کسی کو اپنے سامنے بیٹھے دیکھنا اور ان کی گفتگو سننے میں جو سحر ہے وہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رب کرے کہ اس کانفرنس کا مطمح نظر اور مقصد حاصل ہو۔ رب کرے ہم ادب کے ذریعے، ثقافت کے ذریعے، فنون کے ذریعے پاکستان کے چہرے پر پھیلی ہوئی دھند کو صاف کر سکیں، بنیاد پرستی، تنگ نظری، تعصب اور نفرت کے رویوں کو ختم کر سکیں۔ احمد شاہ سلامت رہو۔