عوامی کالم

December 06, 2022

ہمارے ہاں عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھا جاتا ہے۔ خواص جن کو اب اشرافیہ بھی کہا جاتا ہے ایسا سمجھتے ہیں تو کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ ہم عوام ہیں بھی ایک ریوڑ کی طرح ،جس طرف ہم کو ہانکا جاتا ہے، اسی طرف چل پڑتے ہیں۔ ہم بھیڑ چال بھی چلتے ہیں ۔ایک بھیڑ جس طرف چل پڑتی ہے باقی اسی کی پیروی میں چلتی ہیں۔ ہمارے ہاں کے سیاست دان جن کا مطمح نظر حصول کرسی و اقتدار ہی رہتا ہے بڑے کائیاں اور چالاک ہیں۔ ان کے برعکس عوام اتنے ہی جذباتی اور سادہ ہیں۔ پھر ہم عوام میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں جن کا مقصد دو قت کی روٹی کا حصول ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جن کا مقصد بیٹے کو سرکاری نوکری دلانا یا گلی کی نالی پختہ کرانے کےچند ہزار روپے کے ٹھیکے کا حصول ہوتا ہے۔ اب خود سوچیں کہ ہمیں کوئی آسانی سے دھوکہ کیوں نہیں دے سکتا! ہمیں کسی سیاسی جماعت کے منشور کا معلوم ہی نہیں ہے نہ ہی ہمیں معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تو مذکورہ بالا چند چھوٹی چھوٹی ضروریات کی تکمیل درکار ہوتی ہے وہ کسی بھی جماعت سے وابستہ مقامی رہنما پورا کرنے کا صرف زبانی وعدہ ہی کر دے وہی ہماری جماعت اور وہی ہمارا رہنما ہے اور سیاست دانوں سے بہتر ہماری ان مجبوریوں اور کمزوریوں کو کون جانتا ہے۔ ہم تو وہ ہیں جو صبح کا ناشتہ کرانے والے کے کہنے کے مطابق جلوس و جلسہ میں جاتے اور سارا دن ذلیل خوار ہوتے ہیں۔ ہم وہ ہیں جو ایک پلیٹ بریانی پر ووٹ کا سودا کرتے ہیں۔ ہم وہ ہیں جو ایک ہزار روپے کی دیہاڑی پر جلسوں میں متعلقہ پارٹی کے جھنڈے اٹھا کر لہراتے اور نعرے لگاتے ہیں۔

بھلا ایسے عوام کیونکر اپنے بہتر مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔ گزشتہ 75سال سے یہی کچھ ہوتا اور چلتا آ رہا ہے۔ سیاست دان جمہوریت کا راگ اس لئے الاپتے ہیں کہ یہی وہ دروازہ ہے جس کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنا کر اقتدار کے ایوانوں کے اندر داخل ہوا جا سکتا ہے۔ فوجی حکمرانوں کو آمر کہا جاتا ہے اور منتخب حکومتوں پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرنے کا مجرم کہا جاتا ہے۔ کیا ہم عوام نے، جو ان سیاسی ’’رہنمائوں‘‘ کی پیروی اور ان کی ہر بات کو الہام سمجھتے ہیں ،کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ان منتخب حکمرانوں نے کس طرح اقتدار حاصل کیا ۔ کیا ہر الیکشن کے بعد یہ ایک دوسرے پر الیکشن چوری کرنے اور دھاندلی کے الزامات نہیں لگاتے۔ جب یہ جمہوریت کے نام پر ہم عوام کو بیوقوف بنا کر ہم سے ہمارے ووٹ جھوٹے وعدوں کے ذریعے ہتھیا لیتے ہیں۔ الیکشن چوری اور انتخابی دھاندلی کرتے ہیں تو پھر کیا یہ جمہوریت کو بدنام نہیں کرتے۔ پھر کیا یہ حقیقی اور جمہوری طریقہ سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ کیا یہ دوسری قوت کی بیساکھیاں اور سہارے نہیں ڈھونڈتے اور یہ سب کچھ آخر کیوں کرتے ہیں۔ گالیاں دیتے اور گالیاں کیوں کھاتے ہیں ،کیا کوئی حلفیہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ تو یہ ساری ذلت ملک اور قوم کی بہتری کیلئے برداشت کرتا ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ سب کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے ۔

اقتدار بھی کیا عجیب چیز ہے اس موذی کے لئے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزیوں اور ضمیر کے سودے کرنے تک سے نہیں چوکتے۔ کوئی جھوٹے وعدوں، کوئی دولت اور کوئی مذہب کے نام پر اقتدار کے لئے دیوانہ ہے۔ بعض کا اخلاقی معیار یہ ہے کہ صبح بات کرتے شام کو اس سے مکر ہو جاتے ہیں اور اس منافقت اور اخلاقی بدحالی کو یوٹرن کا نام دیتے ہیں بلکہ فخریہ کہتے ہیں کہ یوٹرن تو ضروری اور اچھے ہوتےہیں۔ بعض کے اخلاقی معیار کا عالم یہ ہےکہ آج جس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے کل اسی کو سب سے برا کہتے ہیں۔ اور اس کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔ آج منت سماجت کر کے جن کوملازمت میں توسیع دیتے ہیں ،کل جب وہ ریٹائر ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کو توسیع دینا بڑی غلطی تھی۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔ آخر ضمیر بھی تو کوئی چیز ہے یا ایسے لوگ ضمیر سے بھی عاری ہوتے ہیں۔سیاست کو عوام کی خدمت کا ذریعہ بتانے والے یہ بھی بتائیں کہ سیاست میں رہتے ہوئے انہوں نے عوام کی کونسی ایسی خدمت کی ہے جس کا مقصد شہرت کا حصول اور مالی مفاد نہ ہو۔ فوج نے جب بھی اقتدار پر ’’قبضہ‘‘ کیا ہے کوئی بتائے کہ اس نے عام آدمی کے لئے کیا مشکلات پیدا کی ہیں۔ ملکی قرضے ’’جمہوریوں‘‘ کے مقابلے میں کتنے بڑھائے اور کتنی لوٹ مار کی ہے۔

آج کل سیاست اور نام نہاد جمہوریت کو جس مقام پر پہنچادیا گیا ہے۔ ملک کی معیشت تنزلی کے آخری درجوں اور مہنگائی میں مزید متوقع اضافے کے ساتھ کوئی بہتری کے اشارے ہر گز نہیں ہیں۔ ایسے میں بعض مفاد پرست بے وقت الیکشن کرانے پر زور دے رہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ تمام تر گالی گلوچ اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والے جن کا وہ خود برملا اقرار کرتے ہیں آزاد اور دندناتے پھرتے ہیں لیکن کوئی بھی ان کو لگام ڈال کر کلے کے ساتھ باندھنے والا نہیں ہے۔ کیا ہم سب بے ضمیر ہیں، کیا ہم سامنے کچھ اور اندر کچھ اور والی منافقت نہیں کر رہے۔؟ کیا یہی فرسودہ نظام ہمارے لئے موزوں اور بہتر ہے یا اس گری عمارت کی جگہ نیا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ صدارتی نظام ضروری ہے۔