آئیے کتاب میلے میں خود کو تلاش کریں

December 08, 2022

آج آپ سے یقیناً ملاقات ہوگی۔ کتاب میلے میں۔ جب کتابیں اسٹالوں پر بے تاب ہوں گی۔ ہمارے چاروں طرف کتابوں کے عشاق ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہماری علمی پیاس بجھانے کےلئے عالمی اُردو کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ ادب فیسٹیول۔ شہر شہر کتاب میلے سجتے ہیں۔ اشرافیہ کی تمام کوششوں۔ مافیا کے تمام ہتھکنڈوں۔ جاگیرداروں کے تمام جبر۔ سرداروں کی تمام اجارہ داریوں کے باوجود ہمارا حرف۔ تدبر۔ ادراک دانش سے رشتہ ان محفلوں کی بدولت ہی جڑا رہتا ہے۔ متوسط طبقہ۔ مزدور ۔ کسان۔ طالب علم ۔ مائیں بیٹیاں۔ بہنیں۔ کچھ دیر کو ان بندھنوں۔ غلامیوں سے آزاد ہوکر اپنا وقت قافیوں۔ ردیفوں۔ کہانیوں۔ دلیلوں کے ساتھ گزار لیتی ہیں۔ ذہن تروتازہ ہوجاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چمک اٹھتی ہیں۔

اُردو کانفرنس کے دوران سیاہ عبا میں نہاں ایک بیٹی نمناک آنکھیں لئے ملتی ہے۔ آپ محمود شام ہیں۔ جی۔ ’بیٹیاں پھول ہیں‘ آپ کی نظم ہے۔ مجھے پوری یاد ہے۔ لیکن اس رات بہت یاد آئی جب شادی کی پہلی رات ہی میرے خاوند نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ بلاوجہ بہت تشدد کیا۔ میں روتی رہی سوچتی رہی کہ شاعر تو کہتا ہے۔ بیٹیاں پھول ہیں۔ گھر کو جنت سا بنادیتی ہیں۔ ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں۔ باپ کے دل کا سکون ہوتی ہیں۔ میرے خاوند پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بالآخرایک بیٹی کو طلاق ہوگئی۔

میری آنکھوں میں بھی آنسو امڈ آئے۔ بیگم ساتھ تھیں وہ بھی اپنے آنسو پوچھنے لگیں۔ایک یہ بیٹی ہی نہیں۔ ان کانفرنسوں میں جتنے بیٹے بیٹیاں آتے ہیں۔ وہ در اصل خود کو تلاش کرنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ ان کے تجسس اور ریاض کے باوصف ہی یہ کانفرنسیں اورمیلے کامیاب رہتے ہیں۔ 75 برس میں جابر حاکموں ظالم افسروں۔ بے حس انتخابیوں۔ سفاک آمروں۔ شقی القلب شوہروں۔ گریڈ کی ہوس میں مبتلا پروفیسروں۔ سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے والے دانشوروں۔ تمغوں کی خواہش کے اسیر قلمکاروں نے ہماری شناخت گم کردی ہے۔ ہم بے چہرہ ہوگئے ہیں۔ ہماری یادداشتیں گروی رکھ لی گئی ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں ہوتے ہوئے بھی لاپتہ کردیے گئے ہیں۔یہ کانفرنسیں۔ یہ کتاب میلے ہوتے ہیں تو ایک بے نام خلش ہمیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم یہاں آنے والے ناول نگاروں۔ شاعروں ۔ افسانہ نویسوں۔ نقادوں۔ صحافیوں میں اپنے آپ کو تلاش کریں۔ عمر بھر قلم اور قرطاس سے رشتہ برقرار رکھنے والی ہستیوں سے جب یہ آٹو گراف لے رہے ہوتے ہیں یا سیلفی کھینچ رہے ہوتے ہیں تو در اصل یہ اپنی تلاش کے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ کسی نے کشور ناہید کو برسوں پڑھا ہوتا ہے۔ وہ کشور آپا میں اپنا آپ ڈھونڈتی ہے۔ کسی نے افتخار عارف کا مسلسل مطالعہ کیا ہے۔ وہ قرض اتارتی رہی جو واجب بھی نہیں تھے۔ وہ افتخار عارف میں اپنا پتہ ڈھونڈنے پہنچتی ہے۔ ظالم حکمرانوں نے نسلوں کی نسلیں گم کردی ہیں۔ کروڑوں پیدا ہورہے ہیں۔ اپنے آپ کو نہیں پہچانتے۔ حبیب جالب دس کروڑ انسانو۔ خود کو پہچانو۔ کہتے کہتے چلے گئے۔ مگر ہم اپنی شناخت نہ کرسکے۔ اپنی اہمیت نہ جان سکے۔ ہم نے جالب کے پسماندگان کو نہیں سنبھالا۔ اب بیٹی طاہرہ جالب بھی اسی مشن پر نکلی ہیں۔ وہ اپنے عظیم باپ کی دھن میں ،لہجے میں ہمیں پکار رہی ہیں ۔ حکمرانوں کو للکاررہی ہیں۔ بہت سے مزاحمتی طاہرہ جالب میں خود کو تلاش کرتے ہیں۔ کسی کو اپنی گم شدہ ذات زہرہ نگاہ میں ملتی ہے۔ کوئی امجد اسلام امجد کے ساتھ سیلفی بنواکر گیان پاتا ہے۔ کوئی نروان کی تلاش میں نور الہدیٰ شاہ کے چرن چھوتا ہے۔ کسی کو اپنا کھویا ہوا وجود حفیظ خان میں ملتا ہے۔ کسی کو اپنی کرچیاں انور مقصود کے جملوں میں بکھری ملتی ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو یہاں آکر مزید گم ہوجاتے ہیں۔ کسی کو اپنے تراشے ہوئے بت سے مل کر مایوسی ہوجاتی ہے۔ پھر وہ سوشل میڈیا میں اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔

کسی بھی گم شدہ قوم کے احیا کے لئے ایسے سیمینار۔ کانفرنسیں۔ کتاب میلے بہت سود مند ہوتے ہیں۔ آفریں ہے ایسے اجتماعوں کا اہتمام کرنے والوں پر۔ سید احمد شاہ۔ اعجاز فاروقی۔ شکیل خان۔ ہما میر اور ان کے رفقا شہر کے بیچوں بیچ ایک گلابی حویلی میں یہ بیٹھکیں آراستہ کرتے ہیں۔ آرٹس کونسل کا سارا چھوٹا بڑا اسٹاف قوم کی خود تلاشی میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ بہت سوں کو منزل مل جاتی ہے۔ وہ پھر اپنے پسندیدہ مصنّفوں کو پڑھنے میں ایک سال گزارتے ہیں اور حکمرانوں کی طرف سے قوم کو گمراہ کرنے کی مزاحمت کرتے ہیں ۔ ادھر ایکسپوسینٹر میں عزیز خالد۔ اقبال صالح۔ متین قادر۔ اویس جمیل مرزا اور دوسرے رفقا اپنے ہم وطنوں کی گمشدگی سے واپسی کےلئے لاکھوں کتابوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ لوح و قلم سے جڑی قابل قدر ہستیوں کو دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کےلئے مختلف ادوار۔ مختلف موضوعات۔ مختلف مسائل۔ مختلف زبانوں۔ مختلف ثقافتوں پر لکھے اوراق یکجا کرتے ہیں۔سال بھر سے پیارسے ۔ تجسس کے مارے۔ سوالات میں گھرے پاکستانی کشاں کشاں تینوں ہالوں میں اپنی ذات کے بکھرے ہوئے ذرّے ڈھونڈتے ہیں۔ آپ بھی دیکھیں گے جب آپ کسی بھی ہال میں کسی بھی اسٹال کے سامنے کھڑے ہوں۔ کوئی خاندان کس طرح حیران پریشان کہہ رہا ہوتا ہے۔ فلاں کتاب ہے۔؟ یہ کتاب نہیں خود کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ ذمہ داری تو ہماری قیادت کے دعویدار سیاستدانوں کی ہے۔ ریاست کے اداروں کی ہے۔ ہم انہیں ووٹ بھی اسلئے دیتے ہیں۔ اپنی آمدنی میں سے کچھ حصّہ ریاست کو اس لئے دیتے ہیں کہ وہ ہمیں ایک قوم کی پہچان دے۔ ہماری کھوئی ہوئی شناختیں بحال کرنے میں مدد کرے۔ لیکن یہ کیسے گلہ بان ہیں ۔ہم بھیڑ بکریوں کو ہانکتے رہتے ہیں۔ ہمیں بے نام ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ اب تو یہ ہمیں بے لباس بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ ہم سے ہماری قومی زبان چھین کر انگریزی مسلط کرتے ہیں۔ ہماری مادری زبانوں سے ہمیں دورکرتے ہیں۔ ہم تو اپنے ساتھ زبان و بیان ۔ تہذیب و ثقافت سے مالا مال صدیاں اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اُردو کی دو صدیاں۔ پنجابی۔ سرائیکی سندھی۔ بلوچی ۔ کشمیری۔ پشتو۔ ہندکو۔ براہوئی۔ بلتی ۔ پوٹھوہاری کے ہزاروں سال یہ ہماری میراث ہے۔ لیکن ہم پر مسلط حکمرانوں ۔ اہلکاروں۔ سالاروں۔ صوبیداروں۔ وزیروں۔ مشیروں کو تو اس لازوال ورثے کا کوئی ادراک ہی نہیں ہے۔ یہ تو اپنے بیانوں۔ فرمانوں سے ہمیں روزانہ صراط مستقیم سے دور جنگلوں ویرانوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہ تو غنیمت ہے کہ کچھ نیک دل پاکستانی کراچی لاہور اسلام آباد ہی نہیں دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں ادب فیسٹیول۔ کتاب میلوں۔ مشاعروں کانفرنسوں کے الائو روشن کرتے ہیں۔ کھوئے ہوئے پاکستانی خود کو ڈھونڈنے دور دراز مقامات سے ان محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

آج آپ سے کراچی کے بین الاقوامی کتاب میلے میں ملاقات ہوگی۔ شاید ہم اپنے آپ کو پالیں۔