میّت کے ولی کے نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد جنازے کی تکرار کا شرعی حکم

December 09, 2022

تفہیم المسائل

سوال: اگر میت کا ایک یا کئی حقیقی ولی عام مسلمانوں کے ساتھ میت کا جنازہ پڑھ لیں ،تو کوئی ایک حقیقی ولی جو موقع پر جنازہ گاہ میں موجود ہو اور اس نظریے کے ساتھ جنازہ میں شامل نہ ہوکہ کوئی ایسا رشتے دار یا حقیقی ولی سفر سے آرہا ہو ،اس نیت سے جنازہ ترک کرنا کہ میری وجہ سے وہ بھی جنازہ پڑھ لے اور میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاؤں ،ایسی صورت میں کیا جنازہ کے بعد دوسرا جنازہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ملازمت کے سلسلے میں شہر میں مقیم کوئی شخص فوت ہوجائے، شہر میں اس کے ساتھ مقیم کسی ولی نے نماز ِ جنازہ پڑھ لی ، پھر میت گاؤں لائی گئی ،توکیا گاؤں میں موجود ولی اس کی نمازِ جنازہ پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب: فقہائے اَحناف کے نزدیک اگر میت کا ولی خود نمازِ جنازہ پڑھ لے یا اُس کی اجازت سے دوسرا شخص پڑھائے ،تو دوبارہ پڑھنا جائز نہیں ہے ، حضرت امام مالک ؒ کابھی یہی قول ہے، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں :’’ کسی میت پر ایک بار کے سوا نماز (جنازہ) نہ پڑھی جائے اور نمازِ جنازہ بطورِ نفل اداکرنا مشروع نہیں ہے ، ’’ایضاح ‘‘ میں اسی طرح ہے، امام اعظم ، سلطان یا حاکم یا قاضی یا محلے کی مسجد کا مقرر امام(امامُ الحَیّ) میں سے کسی نے نمازِ جنازہ پڑھا دیا، تو ولی نمازِ جنازہ کا اعادہ نہیں کرسکتا، اس لیے کہ یہ سب ولی کی نسبت نمازِ جنازہ پڑھانے کے زیادہ حق دار ہیں(ان کے نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد کسی کو بھی پڑھنا جائز نہیں ہے)، البتہ اگر اُن کے علاوہ کسی غیرِ اَولیٰ نے پڑھی تو ولی کو اعادے کا حق حاصل ہے ، ’’خلاصہ‘‘ میں اسی طرح ہے اور اگر ولی نے نمازِ جنازہ پڑھ لی ،تو اس کے بعد کسی کو بھی جائز نہیں کہ دوبارہ نمازِ جنازہ پڑھے‘‘۔ (فتاویٰ عالمگیری ، جلد1، ص:163 )

میت کے اولیاء کی ترتیب عصبات کی طرح ہے ، قریب کے ولی کو فوقیت حاصل ہے ، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ (میت کے) اولیاء کی ترتیب عصبات کی ترتیب کی طرح ہے ، قریب کا ولی زیادہ حق دار ہے، سوائے والد کے کہ وہ بیٹے پر مُقدّم ہے۔ ’’ خِزَانَۃِ الْمُفْتِینَ ‘‘ میں اسی طرح ہے ‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں :’’ولی نے نمازِ جنازہ پڑھ لی اور میت کے اُسی درجے کے دیگر اولیاء بھی ہیں ، تووہ نمازکا اعادہ نہیں کرسکتے ، ’’جوہرۃ النیّرہ‘‘ میں اسی طرح ہے ‘‘۔(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:163-64)

جیسے کسی میت کے کئی بیٹے ہیں ،چونکہ ولایتِ جنازہ میں وہ ایک درجے کے ہیں ،لہٰذا اگرایک بیٹے نے پڑھ لی یا اس کی اجازت سے کسی نے پڑھالی ،تواب اس کے دوسرے بھائی جنازے کا اعادہ نہیں کرسکتے ،کیونکہ سب بیٹے ایک ہی درجے کے ولی ہیں ،لیکن اگرمیت کا بیٹا ہے ،اس نے نہیں پڑھی اورپوتے نے پڑھ لی توچونکہ بیٹا پوتے کے مقابلے میں وَلیِّ اَقرب (یعنی درجے میں میت کے زیادہ قریب ) ہے ،تو بیٹا دوبارہ جنازہ پڑھ سکتا ہے، اس صورت میں اور بھی جن لوگوں نے نہیں پڑھی ،وہ اس کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔

نمازِ جنازہ کی تکرار جائز نہیں ،سوائے اس کے کہ پہلی مرتبہ پڑھی جانے والی نماز میں میت کا ولی شامل نہیں تھا اوراگر جنازہ پڑھانے والا سلطان، (اس محلے یا بستی یا گاؤں کا) والی یا قاضی یا امام الحیّ تھا ،تواب ولی بھی اعادہ نہیں کرسکتا۔ علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر فرغانی لکھتے ہیں :’’ اگر ولی یا سلطان کے سوا کسی اورنے نمازِ جنازہ پڑھی ،اگرولی چاہے تو اُس کا اعادہ کرسکتا ہے ،کیونکہ جیساکہ ہم نے ذکر کیا :’’ جنازہ اولیاء کا حق ہے ‘‘اور اگر (میت کا)ولی (جنازہ) پڑھ چکا تو اب کسی کوجائز نہیں کہ اُس کے بعد پھرپڑھے ،کیونکہ فرض تو پہلی نماز سے ادا ہوچکا اور نماز جنازہ بطور نفل پڑھنی مشروع نہیں ہے ‘‘۔ (ہدایہ ،جلد1،ص:415)

البتہ میت کے لیے دعائے مغفرت باربار کی جاسکتی ہے ، اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ، اس کے لیے ایصالِ ثواب بھی کیاجاسکتا ہے اور ایصالِ ثواب کی مختلف صورتیں ہیں، میت کی طرف سے نفلی حج کرلے، عمرہ کرلے ، نوافل ،تلاوت ِ قرآن ،اَذکار وتسبیحات اور درود پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے یامالی صدقہ دے ، اس میں صدقۂ جاریہ کو ترجیح دینی چاہیے۔

علامہ کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ اگر نمازِ جنازہ کی تکرار مشروع ہوتی توعلماء ،صالحین اور مختلف (جائز )طریقوں سے نبی اکرمﷺ سے تقرُّب کا شوق رکھنے والے سب لوگ (آج تک) یہ سلسلہ ترک نہ کرتے ، مزارِ اقدس پر نماز پڑھنے سے تمام جہان اعراض نہ کرتا ،تویہ (نمازِ جنازہ کے تکرار کے مشروع نہ ہونے پر)ظاہر دلیل ہے اور اس کا اعتبار واجب ہے، (فتح القدیر ، جلد2،ص:123)‘‘۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ اور ولی یا وہ سب (جیسے سلطان ،قاضی ،امام الحی) جن کواَوْلَوِیَّت کی بناء پر نمازِ جنازہ میں تَقَدُّم کا حق حاصل ہے ،وہ دوسرے کو بھی جنازہ پڑھانے کی اجازت دے سکتے ہیں، کیونکہ یہ اُس کا حق ہے اوروہ اپنے حق سے دست بردار ہونے کا اختیار رکھتا ہے (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد3، ص:115)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نمازِ جنازہ کی تکرار جائز نہیں ،اگر بہت ہی شدید ضرورت کے تحت ایسا کرنا مقصود ہو تو پہلے پڑھی جانے والی نمازِ جنازہ میں میت کے اولیاء شریک نہ ہوں۔ بہتر صورت یہ ہے کہ جہاں بندہ فوت ہوا، اُسی شہر میں اس کی تدفین کردی جائے ، تدفین میں تاخیر نہ کی جائے ۔