کانوں میں بجنے والی گھنٹی کو نظر انداز نہ کریں

December 09, 2022

فائل فوٹو

کیا کبھی آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے کانوں میں گھنٹی بجنے یا گُونجنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اسے نظر انداز نہ کریں یہ دیگر طبی مسائل کی علامت ہوسکتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ایسا ٹینیٹس کی وجہ سے ہوتا ہے جو عام طور سے 50 سال سے زائد عمر کے افراد کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی نوجوان اور بچے بھی اس مسئلے کی شکایت کر رہے ہیں۔

ٹینیٹس کیا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق ٹینیٹس ایک ایسی آواز ہے جو مریض کو اندرونی طور پر سنائی دیتی ہے جبکہ حقیقتاً ایسی کوئی آواز نہیں ہوتی اس کی دو مختلف اقسام objective and subjective ہیں۔

آبجیکٹو ٹینیٹس میں صرف مریض کو اندرونی آوازیں سنائی دیتی ہیں جبکہ سبجیکٹف ٹینیٹس میں مریض اور اس کا معالج دونوں کان کے اندر کی آواز سن سکتے ہیں۔

بعض اوقات، بہت سے لوگوں کو اونچی آواز میں گانے سننے کے بعد کانوں میں آواز آتی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ کان میں انفیکشن یا کان میں میل کے جمع ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق کانوں میں سنائی دینے والی یہ آوازیں مختلف نوعیت کی ہوسکتی ہیں، یہ اسِ بات کی علامت ہے کہ سماعتی نظام میں کچھ مسائل درپیش ہیں، جن میں کان، سمعی اعصاب جو اندرونی کان کو دماغ سے جوڑتا ہے اور دماغ کا وہ حصہ جو آواز پر کام کرتا ہے شامل ہے۔ ٹینیٹس کا مرض انتہائی حساسیت یا آواز کی عدم برداشت کے باعث بھی ہوسکتا ہے۔

اس مرض کی نوعیت اور علامات ہر شخص پر مختلف اور اس کا علاج بھی علامات پر منحصر ہے۔

اس کے علاج میں ٹینیٹس تھراپی (ٹینیٹس ری ٹریننگ تھراپی) شامل ہے جو دائمی علامات سے طویل مدتی آرام میں مدد کرتی ہے۔

ضرورت کے مطابق ٹینیٹس کا علاج ہیڈ بینڈز کی مدد سے کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ ماسکرز، ساؤنڈ پلوز اور مختلف آلات کے ذریعے بھی اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق اگر کسی شخص کو کانوں میں گھنٹی بجنے کی شکایت ہو تو اسے فوراً معائنہ کرانا چاہیے۔

ٹنیٹس کا علاج

ماہرین طب کے مطابق مریض کو مختلف ورزش کے ذریعے علامات پر قابو پانے کی ضرورت ہے جن میں گردن، سانس لینے، چہرے، نیورو پلاسٹی سٹی ایکسرسائز اور جبڑے کی ورزش شامل ہیں۔

اگر مریض کو مسلسل نیند میں خلل کی شکایت ہو تو ماہرین طب انہیں ورزش کے ساتھ پسندیدہ موسیقی سننے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کان کے اندر بجنے والی آواز سے ان کی توجہ ہٹائی جا سکے کیونکہ اس طرح کے صرف 50 فیصد کیسز میں ادویات کی مدد سے علاج کیا جاتا ہے۔