تاریخ کے سنہری اوراق

December 09, 2022

مَیں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ لندن سے آتے ہوئے قائدِاعظم قاہرہ میں ٹھہرے اور مفتیٔ فلسطین محمد امین الحسینی سے ملے تھے۔ قارئین کی طرف سے پیغام آئے کہ قیامِ قاہرہ کی مزید تفصیلات فراہم کی جائیں۔ کتب و رسائل کھنگالنے سے مجھے عالمی ترجمان القرآن کے مدیر سلیم منصور خالد کا نہایت عمدہ مضمون مل گیا۔ اُس کے مطابق 16 دسمبر 1946ء کو قائدِاعظم قاہرہ پہنچے اور وَہاں چار دِن قیام کیا۔ان دنوں مصر پورے عالمِ عرب کا ایک اہم علمی اور تہذیبی مرکز تھا، اِس لئے مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ قائدِاعظم نے قاہرہ پہنچتے ہی اپنے بیان میں فرمایا، ’’مصر کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مسلم ہند کس مقصد کے لئےجدوجہد کر رہا ہے۔ یہ مصر کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہونا چاہئے۔ کانگریس کے پروپیگنڈے سے بہت سے اہلِ مصر گمراہ ہوئے ہیں۔ مَیں اُن مصری بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلم ہند کے معاملات میں زیادہ دِلچسپی لیں۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانانِ ہند کی جدوجہد مصر کے لئے کتنی اہم ہے۔ جب پاکستان قائم ہو جائے گا، تب ہی ہم اور مصری مسلمان آزاد ہوں گے، ورنہ ہندو سامراج کی لعنت اپنے پنجے مشرقِ وسطیٰ کے اِس پار تک پھیلا دے گی۔‘‘

18 دسمبر کو ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ’’اگر ہند میں ہندو سلطنت قائم ہو گئی، تو اُس کا مطلب ہو گا ہند میں اسلام کا خاتمہ اور دِیگر ممالک میں بھی۔ اِس باب میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ روحانی اور مذہبی رشتے ہمیں مصر سے منسلک رکھتے ہیں۔ اگر ہم ڈوبے، تو سب ڈوب جائیں گے۔‘‘ پھر قائدِاعظم نے قاہرہ ریڈیو سے 19دسمبر کو نشری تقریر میں مزید وضاحت فرمائی کہ’ ’ہم چاہتے ہیں کہ اِن دو منطقوں میں ،جہاں ایک مسلم حکومت فرماں روا ہے، ہم ایک خودمختار قوم کی حیثیت سے زندگی بسر کریں اور اُن تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علمبردار ہے۔‘‘ قاہرہ میں 19دسمبر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’ ’اگر ہندوستان پر ہندو سامراج کی حکمرانی ہو گی، تو یہ اتنا ہی بڑا خطرہ ہو گا جتنا بڑا خطرہ ماضی میں برطانوی سامراج سے درپیش تھا، لہٰذا مَیں سمجھتا ہوں کہ پورا مشرقِ وسطیٰ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائے گا۔ مَیں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان بلاامتیاز رنگ و نسل اُن تمام اقوام کو تعاون پیش کرے گا جو حصولِ آزادی کی غرض سے جدوجہد کریں گی۔‘‘

قیامِ قاہرہ کے دوران قائدِاعظم کی وادیٔ نیل میں بسنے والی ایک ولی اللہ شخصیت حسن البنّا سے ملاقات ہوئی جو اَپنے لاکھوں ساتھیوں کے ہمراہ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لئے دعاگو تھے۔ بعدازاں یہ رابطہ برابر قائم رہا۔ دونوں کی آرزو ایک ہی تھی۔ استعمار سے آزادی اور ایک ترقی یافتہ مثالی اسلامی ریاست کا قیام۔ قاہرہ کی ملاقات میں اخوان المسلمون کے مرشدِ عام حسن البنّا نے قائدِاعظم کو قرآنِ حکیم کا ایک نہایت خوبصورت نسخہ تحریکِ پاکستان کی علامتی تائید کے لئے ہدیے کے طور پر پیش کیا جو مزارِ قائدِاعظم پر موجود نوادرات میں شامل ہے۔ بعدازاں اِن دونوں قائدین کے مابین خط کتابت بھی ہوتی رہی اور پیغامات کا تبادلہ بھی۔ اِس کا ذکر عتیق ظفر شیخ اور محمد ریاض ملک کی مرتب کردہ کتاب Quaid-e-Azam and the Muslim World میں محفوظ ہے۔

حسن البنّا آل انڈیا مسلم لیگ کے مقصدِ تخلیق پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ جناب پروفیسر خورشید احمد کو اَخوان کے نوجوان رہنما سعید رمضان نے بتایا کہ وہ خود اَور اَخوان کے مرکزی رہنما تحریکِ پاکستان کے حق میں فضا تیار کرنے کے لئے مصر کے طول و عرض میں پُرجوش تقریریں کیا کرتے تھے جبکہ مرشد ہماری رہنمائی فرماتے تھے۔ اِس کے برعکس مصر کے سیکولر قوم پرستوں میں کانگریس کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا تھا۔ اُس پس منظر میں اخوان المسلمون کی جانب سے عالمِ عرب اور اَفریقہ میں تحریکِ پاکستان کی حمایت اپنی قدروقیمت کے اعتبار سے بہت زیادہ اَہمیت رکھتی تھی۔مفتیٔ اعظم فلسطین بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ ایک دعوت کا اہتمام عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمٰن عزام نے قائدِاعظم کے اعزاز میں کیا تھا۔ قائدِاعظم کے ہمراہ لیاقت علی خان بھی تھے۔ عزام کے گھر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں مَیں اور اِمام حسن البنّا تھے۔ ہم قائدِاعظم سے دیر تک محو گفتگو رہے۔‘‘ 1947ء کے اوائل میں انڈین کانگریس نے دہلی میں ایک بین الاقوامی ایشیائی کانفرنس 27مارچ سے 2اپریل تک منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ قائدِاعظم اُس کانفرنس کے پس پردہ محرکات کو مسلمانوں کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ اگرچہ شام، لبنان اور یمن نے اُس کانفرنس کا دعوت نامہ مسترد کر دیا تھا لیکن عرب لیگ نے کانفرنس میں وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ قائدِاعظم نے فروری 1947ء میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط میں اُس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اِس دوران یو پی مسلم لیگ کی حج کمیٹی کے سربراہ حافظ کرم علی نے قاہرہ سے قائدِاعظم کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ’ ’مَیں کئی روز سے یہاں مقیم ہوں۔ مصر میں سب سے زیادہ طاقتور، مضبوط اور مقبول تنظیم اخوان المسلمون کے نام سے موسوم ہے جس کے سربراہ شیخ حسن البنّا ہیں۔ اُن کے پچاس ہزار رَضاکار اَور لاکھوں پیروکار ہیں۔ اُس تنظیم کا اَپنا روزنامہ اور ہفت روزہ ہے۔ مَیں نے تنظیم کے مرکزی دفتر کے سربراہ سے ملاقات کی۔ وہ نہایت تپاک اور بڑی شفقت سے پیش آئے۔ آپ سے میری استدعا ہے کہ کانگریس کی بین الاقوامی ایشیائی کانفرنس کے حوالے سے حسن البنّا سے رابطہ کریں۔‘‘

قائدِاعظم نے اپریل 1947ء میں عبدالرحمٰن عزام کے نام خط میں زور دِیا کہ ’ ’کانفرنس نے اگرچہ بہت لوگوں کو گمراہ کیا تھا لیکن ہم اِن شاء اللہ اِس کوشش سے بچ نکلیں گے اور ہندوستان اور مشرقِ وسطیٰ دونوں جگہ کامیاب ہوں گے۔‘‘ اِس کے ساتھ قائدِاعظم نے اخوان المسلمون کے مرشدِعام حسن البنّا کے نام ذاتی پیغام مصطفیٰ مومن کے ذریعے بھیجا۔ امام البنّا نے ایک ایسا جواب ارسال کیا جو ہر اعتبار سے اُس عہد کے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس خط کے ذریعے قائم ہونے والے پاکستان کے اِسلامی دنیا بالخصوص عرب ممالک کے ساتھ گہرے روحانی اور تاریخی رشتے کشادہ ہوتے گئے۔ (جاری ہے)