نجمہ حمید جیسے لوگ

December 09, 2022

ہماری سیاست میں ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جو اب بھی اپنے پرانے آبائی محلوں میں رہتے ہیں۔ سیاست دانوں نے خود کو عوام سے دور کر لیا ہے، وہ بڑے بڑے فارم ہائوسز میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں نہ عام لوگوں کی رسائی ہے اور نہ ہی وہاں عام لوگوں کو داخل ہونے دیا جاتا ہے ۔عام لوگوں کا لیڈر سے رشتہ سمجھنے والے نوابزادہ نصراللہ خان لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے قریب بوہڑ والا چوک کےپاس سادہ سے مکان میں رہتے تھے مگر اب تو لاہور، کیا پنجاب کی حالت یہ ہے کہ اس صوبے کے بڑے بڑے سیاست دان ڈی ایچ اے میں رہتے ہیں، ووٹ عام محلوں سے لیتے ہیں اسی رجحان کے باعث دوریوں نے جنم لیا ہے، سیاست دانوں کے گھر بڑے ، گاڑیاں بڑی ہو گئی ہیں ، رہائشی محلے اور شاپنگ سنٹر الگ ہو گئے ہیں اس لئے لوگ سیاست دانوں سے دور ہو گئے ہیں۔

نجمہ حمید لوگوں سے کبھی دور نہیں رہتی تھیں، وہ جب کونسلر بنیں تو ان کا گھر راولپنڈی کے علاقے سیٹلائٹ ٹائون میں تھا اسی گھر میں رہتےہوئے وہ ایم پی اے بنیں ،وزیر بنیں اور پھرسینیٹر بنیں مگر انہوں نے نہ گھر بدلا نہ لوگوں سے رویہ، نجمہ حمید کمال خاتون تھیں راولپنڈی شہر میں وہ صرف مسلم لیگ ہی میں مقبول نہیں تھیں ،ان کا احترام دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی کیاکرتے تھے ،عام لوگ ان سے محبت کرتے تھے بلکہ جب وہ پہلی مرتبہ کونسلر بنیں تو ان کی مخالف سیاسی پارٹی کے لوگوں نے بھی انہیں ووٹ دیا۔وہ جب ایم پی اے بنیں تب بھی ایسا ہی تھا، تین روز پہلے جب خاکسار نے نجمہ حمید کی وفات پر کالم لکھا تو بائو ریاض کے بیٹے شہر یار ریاض نے اپنے والد کے ساتھ نجمہ حمید کی ایم پی اے بنتے وقت کی تصاویر شیئر کیں۔

پنڈی کی پرانی سیاست کے جاننے والے بائو ریاض اور حاجی مشتاق کو بخوبی جانتے ہیں۔ حاجی مشتاق کا بیٹا بھی چند روز پہلے نجمہ حمید کے گھر پر مجھ سے ملا، یہ تمام باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ پنڈی کی سیاست میں نفرت نہیں تھی ، ہر طرف محبت ہی محبت تھی، ذاتی لالچ سے ہٹ کر لوگ سماجی خدمت کا سوچتے تھے ۔

سینے میں یادوں کا سمندر لئے تعزیت کرنے پہنچا تو نجمہ حمید کے صاحب زادے عمر حمید اچانک لوگوں کے درمیان میں سے اٹھے اور مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئے،جہاں مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب چند دیگرسیاست دانوں کےساتھ تشریف فرما تھیں، یہاں چوہدری برجیس طاہر ، سردار نسیم اور ضیااللہ شاہ کی موجودگی میں طاہرہ اورنگزیب بتانے لگیں کہ ’’کل میاں نواز شریف کا فون آیا تو میاں صاحب بتانے لگے کہ میرا نجمہ حمید سے 1983ءمیں تعارف ہوا تھا مگر انہوں نے مجھے کبھی کوئی ذاتی کام نہیں کہا ہمیشہ کہتیں کہ فلاں لڑکیوں کا اسکول ہے اس کو بہتر کرنا ہے فلاں عورتوں کا پارک ہے اس کی بہتری کی ضرورت ہے یا کبھی کہتیں کہ فلاں محلے میں عورتوں کے پارک یا اسکول کی ضرورت ہے بس وہ علاقے کی ترقی کے کام ہی بتاتی تھیں ، انہوں نے کبھی کوئی ذاتی کام بتایا ہی نہیں ورنہ لوگوں کے تو ذاتی کام ہی ختم نہیں ہوتے۔‘‘ شاید بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ نجمہ حمید کے صاحبزادے عمر حمید (گلو) برسلز میں کمرشل اتاشی ہیں، وہ اب گریڈ اکیس کے افسر ہیں، گلو نے برسوں پہلے سی ایس ایس کیا تھا مگر نجمہ حمید نے کبھی اپنے بیٹے کی پوسٹنگ کےلئے بھی کسی سے نہیں کہا۔

مخدوم جاوید ہاشمی کو محض ایک خط کا بہانہ بنا کر مشرف دور میں گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا، انہوں نے بہت سختیاں برداشت کیں جب وہ رہا ہوئے تو میں نے اس رہائی کی خوشی میں جاوید ہاشمی کے اعزاز میں عشائیہ دیا، اس کھانے پر اے آر ڈی کی قیادت اور خاص طور پر مسلم لیگی قیادت کو مدعو کیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پر نجمہ حمید ایک کونے میں لے جا کر مجھے کہنے لگیں ،’’مظہر جی !آپ کس طرح کے صحافی ہیں یہ کام تو سیاست دان کرتے ہیں جو آپ کر رہے ہیں ‘‘ بس جواباً یہی کہہ پایا کہ میں ڈیرے دار آدمی بھی تو ہوں صحافت ضرور کرتا ہوں، بلیک میلنگ نہیں کرتا اور نہ ہی اس شعبے کے ذریعے دولت کمانے کے راستے ڈھونڈتا ہوں ۔‘‘

مشرف دور میں گریجویشن کی شرط عائد کی گئی تو نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب دونوں بہنیں بالکل پریشان نہ ہوئیں کیونکہ ان کے والد سید محمد شاہ اپنی بیٹیوں کو ساٹھ کی دہائی میں اعلیٰ تعلیم دلوا چکے تھے یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ موجودہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب جب نو سالہ کی تھیں تو ملتان میں ایک حادثے کےسبب ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی پھر ان کے خاندان نے دنیا کے بہترین ڈاکٹروں سے علاج کروایا ۔سوشل میڈیا پر اس خاندان سے متعلق بڑی کہانیاں گھڑی گئیں ان کہانیوں میں کوئی صداقت نہیں مگرکیا کیا جائے؟ ہمارے معاشرے میں لوگ جھوٹ اس انداز میں پھیلاتے ہیں کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے ایسی ہی کہانیاں طاہرہ اورنگزیب سے متعلق سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں مگر سچ غالب آکر رہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ بیگم نجمہ حمید کی قل خوانی پر پورا پنڈی شہر امڈ آیا پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ آئے۔نجمہ حمید کی وفات پر ان کا پیدائشی شہر ملتان بھی اداس رہا کیونکہ وہاں ملتان کے سابق ناظم فیصل مختار کی والدہ مسز فرخ مختار اور راحت ملتانیکر کی والدہ ثریا ملتانیکر بھی دکھی نظر آئیں ۔مسز فرخ مختار مجلس شوریٰ کی رکن رہی ہیں جبکہ راحت بانو ملتانیکر (راتو)کی والدہ ثریا ملتانیکر نے گائیکی کی دنیا میں منفرد مقام پایا ۔

نجمہ حمید سے صرف پنڈی اور ملتان کے لوگ ہی محبت نہیں کرتے تھے بلکہ پورے پاکستان میں ان کے چاہنے والے تھے خاص طور پر عورتیں ان سے بہت محبت کرتی تھیں بقول عباس تابش ؎

اندازہ مت لگائیے بس بیٹھ جائیے

خوشبو بتائے گی پسِ دیوار کون ہے