سیلاب اور سندھ کی دیہی معیشت

December 09, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

سیلاب سےہونے والی تباہی کے پیشِ نظر اب کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟ اس مرتبہ سیلاب کی وجہ یہ تھی کہ موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے دریا کی سطح میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ قومی آبی گزرگاہوں پر تجاوزات کی وجہ سے پانی کا بہائو بھی رُک گیا۔ایل بی او ڈی جیسے نکاسیٔ آب کے نظام کی صلاحیت محدود تھی ۔ نیز سمندر کی طرف جانے والی روایتی گزر گاہیں عرصہ ہوا غیر فعال تھیں۔ نہروں کی صفائی نہیں کی گئی تھی ۔ بند پشتوں کی مرمت اور دیکھ بھال کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ 2013 کے ورلڈ بینک اور ایس آئی ڈی اے کے مطالعے میں ان منصوبوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن پر عمل درآمد نکاسیٔ آب کے نظام کے لئےدرکار تھا۔ تاہم اس ضمن میں 42 ارب روپے کے منصوبے گزشتہ آٹھ برسوں سے التوا کا شکار ہیں ۔ ضروری ہے کہ مطلوبہ وسائل مختص کر کے ان پر تیزی سے کام کیا جائے۔ پانی کے بہائوکے قدرتی راستوں پر انسانوں کی بنائی ہوئی تمام تجاوزات اور رکاوٹوں کو فوری طور پر ہٹانا ہوگا، چاہے ان تجاوزات سے فائدہ اٹھانے والے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ تھرڈپارٹی تمام معاملات کی نگرانی کرے تاکہ بدعنوانی اور وسائل کے ضیاع کو کم کیا جاسکے۔

دوسرا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان اقدامات پر نظر ثانی کریں۔ عمل درآمد سے کارکردگی میں اضافہ ہو اور آبی وسائل کو تحفظ ملے ۔ صوبہ سندھ چوں کہ دریا کے زیریں بہائو پرہے ، اس لئے یہاں پانی کا مسئلہ شدید نظر آتا ہے ۔ پانی کی قلت چھوٹے کسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی فصلوں کے لئےبروقت اور مناسب پانی کی دستیابی سے محروم ہیں۔بااثر اور سیاسی وابستگی رکھنے والے زمیندار محکمۂ آبپاشی کے افسروں کی ملی بھگت سے آب پاشی کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور نہروں میں شگاف ڈال کر براہ راست پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ٹیل اینڈ کے غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ بڑے کسانوں اور چھوٹے کسانوں کے درمیان پیداواری فرق پانی کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے باعث بھی بڑھا ہے۔

اس کے علاوہ آبی آلودگی، سمندری پانی کا کوٹری بیراج کے زیریں بہائوتک سرایت کرآنا، زراعت میں کیڑے مارادویات کا بڑھتا ہوا استعمال، پھیلتے ہوئے شہروں اور صنعتوں سے خارج ہونے والے بیکار مادے، سیوریج ٹریٹمنٹ کی ناقص سہولتوں نے پانی کے معیار کو کم کردیا ہے ۔ دریا کے بہائو کو کنارے کے اندر محدود رکھنے کی ماضی کی کوششوں کے طور پر دریائوں کے پشتے اور بند اونچے کردیے گئے ۔ اس کے نتیجے میں دریا کی نشیبی سطح بھی بلند ہو گئی۔اس کے ساتھ ہی دریا کے کناروں میں شگاف پڑنے اور سیلاب آنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ۔ آبیانہ نظام کے تحت پانی کے یکساں نرخوں کی جگہ استعمال کیے ہوئے پانی کی مقدار کے مطابق قیمت وصول کی جائے ۔

تیسرا، سماجی اشارے جیسا کہ خواندگی،ا سکولوں میں داخلے کا تناسب، اسکول چھوڑنے کی شرح، پیشہ ورانہ اور تکنیکی مہارتوں کی تربیت، حفاظتی ٹیکوں، ادھوری جسمانی نشو ونما اورجسمانی صلاحیتوں کو تباہ ہونے سے روکنے کے لئے غذائیت کے معیار کو بڑھانا، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال ، خاندانی منصوبہ بندی اور پیدائش میں وقفے پر توجہ ضروری ہے تاکہ دیہی خواتین کی حالت سدھاری جاسکے ۔ ماضی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے آگاہی اور احتیاطی صحت کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا تھا۔ نتائج کی بنیاد پر ان کوتربیت اور مراعات سے منسلک معاوضہ دیا جائے۔ موجودہ سہولتوں اور عمارتوں کا بہتر استعمال کیا جائے۔ اسکول چھوڑنے والوں ،خاص طور پر لڑکیوں کے لئے غیر رسمی تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ خواتین کی سربراہی میں چلنے والے کاروبارکو چھوٹے اور آسان قرضے دیے جائیں تاکہ وہ اپنے اداروں میں توسیع اور سرمایہ کاری کر سکیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پرعملدرآمد کرتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ غریب خاندانوں کو ترجیحی طور پرامداد دی جائے۔ سیلاب سے پہلے پاکستان میں 38 ملین افراد کو درمیانی غذائی عدم تحفظ سے لے کر شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا۔ 18 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار تھے۔ یہ تعداد سیلاب کے بعد بڑھی ہوگی۔ ان متاثرہ گروپوں تک خوراک کی تقسیم کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی نیشنل سوشل اکنامک رجسٹری کے ذریعے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

چوتھا، زیادہ تر سروے، رائے عامہ کے جائزوں اور میڈیا رپورٹس میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال اور خدمات فراہم کرنے والوں کی سرد مہری کو عوامی خدمات کی ناقص فراہمی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لئے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کی بحالی، ربیع کی فصلوں کیلئے بیجوں کی تبدیلی، دانوں کی خریداری کے لئے بلاسود قرضے، مکانات کی تعمیر نو اور نئی کمپیکٹ بستیوں کے لئے روایتی اے ڈی پی منصوبوں سے فنڈز کی دوبارہ تقسیم کی ضرورت ہے۔

گھریلو استعمال کےلئے پینے کے پانی کو ترجیح دیتے ہوئے، نکاسی اور صفائی، رابطہ سڑکیں، ضلعی آبادکاری کے مقامات کو اس سال کے نظرثانی شدہ اے ڈی پی میں شامل کیا جانا چاہئے۔ آبادکاری اور رہائشی ترقی کےلئے زمین کے مسائل، محفوظ علاقے اور زیادہ خطرے والے علاقوں، بے زمینوں کے لئےآباد کاری کے لئے زمین کی فراہمی کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ تعمیراتی مواد، رہائش کا معیار، موسمیاتی پناہ گزینوں اور شہری علاقوں کی طرف ہجرت، ایسے مسائل ہیں جن پر پالیسی سازوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آخر میں، صوبائی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے ذریعے اس وقت حاصل اختیارات اور وسائل کو مقامی انتظامیہ کے براہ راست کنٹرول میں آنے والے اضلاع کو منتقل کیا جانا چاہئے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو گائیڈ لائنز، معیار، عملدرآمد کا نظام، الرٹ سسٹم تیار کرنا چاہئے، قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں سے وسائل کو متحرک کرنا چاہئے اور ڈی ڈی ایم اے کی کارکردگی کی نگرانی اور آڈٹ کانظام وضع کیا جائے۔ تاہم، نفاذ کو ضلعی حکام کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ صورتحال کا جائزہ لینے، کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنےاورذمہ داریاں تقسیم کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔