مسئلہ کشمیر اور عالمی برادری کی ذمہ داری

December 09, 2022

کشمیریوں کی کئی نسلیں جوان ہوئیں۔ دہائیاں گزر گئیں، قراردادیں منظور ہو چکی ہیں جو آج بھی بین الاقوامی برادری کی نظر التفات کی منتظر ہیں۔ بھارت نے سراسر ناجائز اور غیر قانونی طور پر کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے، جس کے خلاف ہزاروں کشمیری نوجوان جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت کوئی ایسا ظلم نہیں ہے جو غاصب بھارتی حکمرانوں نے مظلوم کشمیریوں پر نہ ڈھایا ہو۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 95فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے جو مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف گزشتہ سات دہائیوں سےسراپا احتجاج ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود بین الاقوامی برادری نے پراسرار اور شرمناک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

غاصب بھارت نے 5اگست 2019 کو خود اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتےہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور دفعہ 370 کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی ریاست کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کر دیا حالانکہ عالمی سطح پر اس علاقے کو متنازع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے اس متنازعہ علاقے پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت و حق آزادی کو بھی تسلیم کیا ہوا ہے لیکن بھارت کو نہ انسانی حقوق کی پروا ہے نہ بین الاقوامی قوانین کو خاطر میں لاتا ہے۔ تو پھر اس صورتحال پر مسئلۂ کشمیر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے منہ پر طمانچہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے دہائیوں سے حل طلب مسئلے پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی شرمناک خاموشی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب تنظیمیں اور یو این او صرف چند عالمی طاقتوں کے مفادات کے لئے قائم کئے گئے ادارے ہیں، ورنہ گزشتہ 70 سال سے کشمیری شہید ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر بے گناہ اور مظلوم کشمیریوں کے خون میں رنگا ہوا ہے۔ قابض بھارت نے اتنے طویل عرصے سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے لاکھوں کشمیریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اہم کشمیری رہنمائوں سمیت جن میں یاسین ملک اور شبیر شاہ وغیرہ نمایاں ہیں،بھارتی جیلوں میں بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن دنیا خاموش ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے وہ باشندے، جو بیرونی ممالک خصوصاً برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ میں مقیم ہیں، بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے خلاف اور حق خود ارادیت کے لئے سراپا احتجاج رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فریسکو میں کشمیر گلوبل کونسل (KGC) کے زیراہتمام ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں کے جی سی کے ساتھ سائوتھ ایشیا ڈیمو کریسی واچ بھی شامل تھی۔ کشمیر تنازع پر منعقدہ اس سمپوزیم میں امریکی کانگریس کی خاتون رکن ٹیری میزا مہمان خصوصی تھیں۔ ان کے علاوہ معروف سماجی کارکن محترمہ بورلی ہل مختلف سیاسی رہنمائوں، ماہرین تعلیم اور نوجوان طلبا سمیت امریکی میڈیا نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی اور رکن امریکی کانگریس ٹیری میزا نے کہا کہ وہ کسی بھی قسم کے جبر کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کشمیری عوام کی جائز امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل پر زور دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری اور بالخصوص امریکہ پر زور دیا کہ وہ نظامِ انصاف کو پس پشت ڈالنے کی سیاست اور بھارت کے تمام امتیازی اقدامات کو ختم کرنے کے لئے بھارت پر دبائو ڈالے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی وحشیانہ کارروائیوں اور بدترین و انسانیت سوز مظالم کے بارے میں نمایاں بیداری بڑھ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں جاگنے لگی ہیںاور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، جینوسائیڈ واچ اور یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی، کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے اور تمام لوگوں کو انصاف فراہم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ تمام رپورٹس کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی ایک جامع اورآزاد بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لئے انکوائری کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتی ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق، جو کہ ان کا حق ہے، مسئلۂ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان مظلوم اور نہتے کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتا ہے اور یہ مدد کرتا رہے گا۔ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے اور آزاد رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ آخر کب تک بھارت جبر و استحصال کے ذریعے اور بین الاقوامی قوانین کو روندتے اور انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھے گا؟ اس خطے میں قیام امن بہر صورت مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے مشروط ہےاوریہ بات دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)