بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

December 09, 2022

مونس الٰہی نے کہاکہ ’’اگر جنرل قمر جاوید باجوہ برے ہوتے تو کبھی یہ نہ کہتےکہ آپ عمران خان کا ساتھ دیں‘‘۔ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے بھی مونس الٰہی کی بات کی تائید کی اورکہا،’’جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ آپ سوچ کر چلیں، آپ اور آپ کے دوستوں کیلئے عمران خان والا راستہ بہتر ہے‘‘۔ یعنی ایک بات طے ہےکہ جنرل باجوہ کا دل عمران خان کے لئے دھڑکتا ضرورتھا ،باقی تو معاملات ِ دنیا ہیں۔

دل کی بات الگ ہے پیارے گھر تو بسانے پڑتے ہیں،پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والوں کو مونس الٰہی کی یہ بات پسند نہیں آئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مونس الٰہی نےجو کہاسچ کہا ۔جنرل باجوہ نے شروع میں جب عمران خان کا کھل کرساتھ دیا تھا تواس وقت پی ٹی آئی والوں کےجنرل باجوہ کےلئے بڑے اچھے خیالات تھے، بعد میں بدل گئے ۔نہ وقت ایک جیسا رہتا ہے ،نہ لوگ ایک جیسے رہتے ہیں اور نہ آسمان کے رنگ ۔یقیناًجنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں فرق آئے گا۔ پوری قوم کو ان سے پازیٹو وائبز آرہی ہیں ۔

اس وقت عمران خان کی مقبولیت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے ۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت وہ کھمبے کو بھی کھڑا کردیں گے تو لوگ اسے بھی ووٹ دیں گے ۔تمام تر مخالفین اورپارٹیاں وقت بدلنے کے انتظار میں ہیں ۔نہیں چاہتیں کہ فوری طورپر الیکشن ہوں ۔ دیکھئے وقت کیسےبدلتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ پچھلے دسمبر کی بات ہے، میرے پاس پی ٹی آئی کے ایک وزیر تشریف لائے ،کہنے لگے ’’ حالات بہت خراب ہیں، ممکن ہی نہیں کہ اب عمران خان کے نام پر لوگ ہمیں ووٹ دیں ۔مہنگائی کتنی بڑھ چکی ہے ۔ لوگوں کا جینا مشکل ہو چکاہے ۔ عمران خان نے نیا پاکستان بنانے کا جو عوام کو خواب دکھایا تھا ،وہ کسی فلم کی طرح بری طرح فلاپ ہوگیا ہے ۔ممکن ہےخان صاحب میانوالی سے جیت جائیں مگرکہیں اور سے ان کا جیتنا ممکن نہیں رہا ۔پی ٹی آئی کے لوگ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح نون لیگ کا ٹکٹ مل جائے مگر وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ اب نون لیگ کے ایم این ایزپی ٹی آئی کے ٹکٹ مانگتے پھرتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ وقت بدلتا ہے، میں روز لاہور شہر کی سڑکوں پرنئی عسکری قیادت کے استقبالیہ بینرلگے دیکھتا ہوں ۔ایک طرف جنرل عاصم منیر کی تصویر لگی ہوتی ہے تو دوسری طرف جنرل ساحر شمشاد کی۔میرے خیال میں پہلی بارچیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تصاویر اس طرح بینرز پر آویزاں کی گئی ہیں۔ اس کا سبب خود جنرل ساحر شمشاد کی ذات ِ گرامی ہے ۔وہ ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں ۔ ایک بچہ جس کے والدین اس کے بچپن میں فوت ہو گئے تھے ، جس کی پرورش کے لئے اس کی فیملی کا کوئی فرد موجود نہ تھا، اس یتیم بچے کاچیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بن جانے کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی آسمان زمین سے مایوس نہیں ہوا۔ انہیں بچپن سے سپاہی بننے کا شوق تھا، ملک و قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ ان کے رگ و پے میں دوڑتا تھا ۔انہوں نے آج سے تقریباً تیس سال پہلے فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا۔اس بچے کےلئے فوج میں کمیشن حاصل کرناقطعاً آسان نہیں تھا۔ نہیں معلوم کہ اس نے اتنی محنت کیسے کی، کیسے اتنا پڑھ گیا کہ فوج میں اسے کیپٹن بھرتی کرلیا گیا۔

جنرل ساحر شمشاد کی اس کامیابی سے ان بچوں کو بھی حوصلہ ملے گاجو مشکل ترین حالات میں آگے بڑھنے کےلئے مسلسل کوشاں ہیں ۔ انہیں یہ سبق حاصل ہوگاکہ اگر ایک یتیم بچہ ایک دن چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بن سکتا ہے تو کوئی بھی محنت کرنے والا کہیں بھی پہنچ سکتا ہے۔ ان کا کیریئر بہت متاثر کن رہا ہے۔ وہ جب ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے تو انہوں نے وہاں بھی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ بھارت کے ساتھ ہماری ایک طویل سرحد ہے جہاں اکثر جنگی صورتحال جنم لیتی رہتی ہے۔ انہوں نے اندرونِ ملک بھی ایسا کام کیا کہ کبھی آئینی حدود سے باہر نہیں نکلے اوربھارت کے ساتھ بڑے تحمل اور برباری کے ساتھ تمام معاملات طے کئے۔انہوں نے کئی اہم عہدوں پر کام کیا ہے۔انہوں نے شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کی نگرانی کی تھی ۔دیکھئے بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسےکہ ایک یتیم بچہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بن گیا۔