ادب کا خزینہ شہر در شہر

December 10, 2022

پرانے زمانے کی فلم کی طرح میں آٹھ دن میں تین چکر کراچی اور فیصل آباد کے لگا چکی ہوں۔ کوئی آفت یا مصیبت نہیں تھی۔ محبت اور وہ بھی ادب اور ادیبوں کی محبت گلے کا ہار بنی ہوئی تھی۔ کھانسی نے بھی مجھے روکنے کی کوشش کی، میری ضد کے سامنے وہ رُکی نہیں۔ ساتھ چل دی۔

فیصل آباد میں ہماری ادب دوست خواتین ہر سال کانفرنس کا اہتمام کرتی ہیں،ڈاکٹر ناصرہ اقبال، سلمیٰ اور منیزہ ہاشمی ۔ایسے میں جب معاشرے میں فیس بک اور میڈیا کے ذریعے لغویات بمعہ گالیوں کا ایسے آسانی سے استعمال جاری ہے۔ علاوہ ازیں، افغانستان میں تو ہماری نائب وزیر خارجہ جائے تو اس کا استقبال وہ سب مولوی بھی جھک کرکرتے ہیں جو افغانستان کی تمام عمر کی خواتین کو پارک تک جانے کی اجازت نہیں جانے دیتے، سینئر ملازمتوں والی خواتین کو گھر بٹھانے پر ابھی تک بضد ہیں۔ ایک اور اسلامی ملک ایران میں بھی حجاب کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں کہ پاسداران نے سید امینی نامی 20 سالہ خاتون کو باقاعدہ حجاب نہ کرنے پر اتنا زدو کوب کیا کہ وہ وفات پاگئی۔ ہر چند کل پرسوں حکومت ایران نے یہ کہا ہے کہ اس نے پاسداران کی پوری صف کو ختم کردیا ہے۔ توقع ہے کہ خواتین بھی اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرتی رہیں گی۔

کراچی میں دو ادبی جشن منعقد ہوئے۔ ایک تو امینہ سید نے فرئیرہال میں اور باہر لان میں دو دن میں 22سیشن ہوئے، جس میں پاکستان کی موسمیاتی زبوں حالی اور غربت کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔ وہیں پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور ہمارے اپنے پڑوسی ملکوں سے کشیدہ تعلقات پر بحث کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا گیا کہ اس وقت ہماری زرعی صنعتی پیداوار تقریباً نفی کی حد پرپہنچی ہوئی ہے۔ اس لئے ملکوں کے باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ہمسایہ ممالک کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے ممالک سے بھی ضروری اشیا منگوائی جائیں۔ چیف منسٹر سندھ نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک سندھ کے بہت سے دیہات میں پانی کھڑا ہوا ہے۔ا مینہ سید کو فریئر ہال میں کانفرنس کرنے کی اجازت توملی مگر ایک سیشن چھوٹے، ایک بڑے ہال اورزیادہ تر سیشن گارڈن میں منعقد ہوئے۔ البتہ آخری سب سے اونچی منزل کہ جہاں کی چھت کو صادقین نے اپنے برش سے آراستہ کیا تھا، اس کے درو دیوار پر فوزیہ حسن اللہ کی مصوری کی نمائش کو دیکھنے کے لئے بے پناہ لوگ، جس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں شامل تھیں ، آئےتھے۔ نور مقدم جیسے قتل، عورتوں پہ تشدد اور درختوں کی محبت، جس کو فوزیہ گزشتہ 25برس سے کینوس پہ ڈھال رہی ہے، یہ موضوعات منفرد انداز لئے ہوئے تھے۔

احمد شاہ ، کراچی آرٹس کونسل کے صدر کی حیثیت سے روز ایک نہ ایک تقریب کے لئے گزشتہ پندرہ سال سے ، پاکستان بھر کے ادیبوں کا اجتماع کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ویسے تو جون ایلیا پیار سے انہیں اپنا غنڈہ کہتے تھے۔ اس شخص نے مگربقول حفیظ جالندھری بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں۔ ہر حکومت اور ہر ادارہ اس کے انتھک کام کی تعریف کرتا ہے۔ بڑی بات یہ کہ ہزاروں کے مجمع میں مہمان ادیبوں کے لئے ہر طرح کے احترام کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اس مرتبہ تو آرٹس کونسل کے وسیع گرائونڈ اور تمام آڈیٹوریم بھی نوجوان نسل کی بھرپور شرکت کے باعث چھوٹے لگ رہے تھے۔ کانفرنس میں تمام تر موضوعات میں یہ التزام رکھا گیا تھا کہ اکیسویں صدی کے گزرے سالوں میں کیا نئے موضوعات اور اسالیب متعارف کروائے گئے ہیں ۔ عالمی سطح پر افسانوی اور شعری آہنگ میں کیا نیا پن آیا ہے۔ احمد شاہ کی کانفرنس میں دو اشخاص کی موجودگی اور ادائیگی سارے منظر نامے کی جان ہوتی ہے۔ یہ دو اشخاص ہیں، ضیا محی الدین اور انور مقصود، دونوں کی حسِ مزاح اور صدا کاری ، دونوں کی ادائیگی سے بہت پڑھے لکھوں کو بھی اپنی اپنی اصلاح کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ اس دفعہ ضیا بھائی کو نجانے انتخاب میں کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا نامناسب ہے اور کیا سنایا جاسکتا ہے۔ بہرحال وہ ہوں اور عاشقوں کا جم غفیر تو بس ان کو دیکھنا ، ان کو سننا چاہتا ہے۔

یہی احوال، انور مقصود کے ساتھ بھی ہے۔ کچھ عرصے سے پاکستان کو اپنے دگر گوں حالات میں چھوڑ کر عالم بالا میں پہنچے ہوئے ادیبوں کی نشست میں ، اپنے قلم سے زمانے کو بڑے شوق سے احوال سناتے رہتے ہیں مگر ادھر بھی۔ البتہ پھلجھڑیاں کچھ سیلی سیلی سی تھیں اور پھران پر اور افتخار عارف پر ان چار دنوں میں متعدد بار بولنا پڑا۔ صرف دو موضوعات کی تشنگی رہ گئی۔ ایک تو سیلاب کے مصائب کو سہنے والے کیا سوچتے اور لکھتے رہے اور پھر تمام پروفیسر حضرات، واجب الاحترام لہجے میں لکھنے والوں کے نام گنواتے رہے۔ ہم نےکانفرنس کے ہر سیشن میں تلاش کرتے ہوئے ہر مقابلہ غور سے سنا کہ شاید پتہ چل جائے کہ اردو ادب میں کون سے نئے موضوعات شامل ہوئے ہیں۔ مشاعرے تو اس مسئلے پر روشنی نہیں ڈالتے ،ہاں مکالمہ ہوتا تو اس پندرھویں کانفرنس سے بہت کچھ سمیٹ لیتے۔ بہرحال محبتیں ہی محبتیں تھیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)