اقتدار کی چھینا جھپٹی میں جاری ’’بیانیے کی جنگ‘‘ اصل مسائل پر غالب رہی

December 29, 2022

دو ہزار بائیس کا سال جاتے جاتے ہر سال کی طرح بہت سی یادیں چھوڑ کر جارہا ہے۔ حالات و واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے سال بھر میں ہمیں پاکستان اور بیرونی دنیا میں بھی بیانیے کی جنگیں اصل جنگوں سے زیادہ ہوتی نظر آیں۔ لیکن پاکستان اور بین الاقوامی طور پر ہونے والی بیانیے کی جنگوں پر بات کرنے سے اچھا ہوگا کہ پہلے خود بیانیے کے لفظ یا اصطلاح کو سمجھا جائے۔

بیانیہ کسی قصّے یا کہانی کو بھی کہا جاسکتا ہے اور کئی واقعات پر مشتمل ایک داستان کے مرکزی خیال یا حصے کو بھی۔ بیانیے کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں اصل یا مفروضہ حالات و واقعات کو یکے بعد دیگر ےعلی الترتیب بیان کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کسی حقیقی ، مفروضہ یا من گھڑت بیانیے پر کیوں یقین کر لیتے ہیں۔ غالباً اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ قصہ کہانی انسانی سرشت میں شامل ہے۔

انسانوں نے کہانیوں کے ساتھ تعلق بہت جلد استوار کر لیے تھے،شاید پتھر کے زمانے سے لوگ قصّے کہانیاں کہتے سنتے چلے آرہے ہیں اور ایک دوسرے پر یقین بھی کرتے رہے ہیں۔

ہزاروں سال سے کہانیاں ہمارے سامنے نت نئے روپ میں آتی اور پھر زندہ بھی رہتی ہیں۔ بے شمار جھوٹے عقائد اسی طرح کے کچے پکے بیانیوں کی شکل میں وجود پاتے ہیں اور پھر لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔

آج ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو زیادہ تر جھوٹے عقائد دیومالائی کہانیوں پر مشتمل نظر آتے ہیں لیکن جب انہیں بیان کیا گیا تو لوگ اُن پر یقین کرتے چلے گئے۔ زیادہ تر حکایات بھی بیانیے پر مشتمل ہوتی ہیں، جو ہمیں اچھے درس بھی دے سکتی ہیں اور گم راہ بھی کر سکتی ہیں۔ پھر لوگ مافوق الفطرت بیانیوں سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارا فلاں سورما یا رہ نما تمام غلطیوں سے مبّرا ہے اور بہت پاک صاف ہے یا اس میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔

مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے،جب کسی فرد یا گروہ یا قوم میں مروج بیانیے کے خلاف کوئی اور بیانیہ لایا جائے یا پھر اس فرد یا گروہ کے دل میں مستحکم بیانیے کو للکارا جائے۔ ایسے میں کچھ لوگ جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں دو یا زیادہ بیانیوں کو پرکھتے ہیں اور اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ اور لوگ اپنے من پسند بیانیے کے بارے میں کسی بھی سوال سے گریز کرتے بل کہ عقل کے استعمال سے بھی منع کرتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نیے بیانیے کو قبول کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اب تک غلطی پر تھے اور ہم جانتے ہیں کہ لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کم ہی کرتے ہیں ،کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ خود اپنے آپ کو کم عقل سمجھتے ہیں کہ میں اتنا احمق ہوں کہ ایک غلط بیانیے پر یقین کر بیٹھا اور کئی سال اس کی نذر کردیے یا ساری عمر ایک سراب کے پیچھے دوڑتے گزار دی۔

اس تمہید کے بعد ہم دیکھتے ہیں پاکستان میں حالیہ مہینوں اور برسوں میں کون سے بیانیے مروج رہےاور انہوں نے لوگوں کو کس حد تک متاثر کیا۔

1 ۔ کرپشن یا بدعنوانی کا بیانیہ

یہ بیانیہ کوئی نیا نہیں ۔ بدعنوانی کی داستانیں ہم ہمیشہ سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ کیسے بادشاہ کے کچھ وزیر یا دربان دربار تک رسائی مشکل بنا دیتے ہیں اور پھر رشوت لے کر اجازت دیتے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کا بیانیہ قیام پاکستان کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا جب حکومت نے کئی سیاست دانوں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے اور انہیں نااہل کردینے کی دھمکیاں دیں تاکہ وہ حکومت وقت کا ساتھ دیں یا پھر نااہل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ مثلاً ایوب کھوڑو پر بدعنوانی کے الزامات لگا کر اُن کی سندھ میں حکومت برخاست کی گئی اور کچھ عرصے بعد جب وہ ون یونٹ کی حمایت پر تیار ہوگئے تو انہیں دوبارہ سندھ کا وزیراعلیٰ بنا کر ون یونٹ کے حق میں قرارداد منظور کرلی گئی۔

اس طرح یہ کرپشن کا بیانیہ ایوب خان کے دور میں بھی تقریباً تمام سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا گیا تا وقت کہ، وہ تائب ہوکر ایوب خان کے تابع نہیں ہوگئے۔ پھر سیاست دان خود بھی ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح کرپشن کے الزامات لگا کر اس بیانیے کی ترویج کرتے رہے کہ ان کے سوا سب بدعنوان ہیں۔ جنرل مشرف نے قومی احتساب بیورو کے زریعے اس بیانیے کو استعمال کرتے ہوئے دو بڑی سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھا۔

لیکن جس شدومد سے عمران خان صاحب نے اس بیانیے کو استعمال کیا ہے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ جس منصوبے پر کام شروع کیا گیا وہ کچھ اسی نوعیت کا تھا جس طرح کے منصوبےنواز شریف کو استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے تھے۔ ان منصوبوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت ملک میں مقبول ترین ہو تو اس کو بدنام کرنے اور اس کی ساکھ تباہ کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ شروع کیا جائے۔

نواز شریف نے اپنے وقتوں میں اس منصوبے پر خوب عمل کیا اور اُس وقت کی مقبول ترین سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے خلاف بھرپور بیانیے کے ساتھ حملے کیے۔ لیکن یہ دونوں جلد ہی اس طریقہ واردات سے واقف ہوگئے اور اپنی راہ جدا کرلی۔ پھر یوں ہوا 1990 کے کرپشن کے بیانیے جو بے نظیر اور نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے سبق سیکھ چکے تھے، جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں شکار ہوئے مگر میثاق جمہوریت نے انہیں نئی راہ سجھائی۔

اب اکیسویں صدی میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کا نیا بیانیہ استعمال نہیں کریں گی۔ اس لیے عمران خان کے ساتھ ایک نئے منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ کرپشن کے اس نئے بیانیے پر کام تقریباً دوعشروں پر مشتمل ہے مگر اس میں زیادہ زور پچھلے دس سال میں آیا جب عمران خان کو ایک رہ نما بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

عمران خان کو جو سبز باغ دیکھائے گئے اُن میں وزارت عظمیٰ کا لالچ شامل تھا مگر اس کے لیے انہیں دو بڑی سیاسی جماعتوں کو بیک وقت ھدف بنانا تھا۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ،دونوں اپنے تجربات سے سیکھ چکی تھیں کہ جمہوریت کی ترویج کے لیے سیاسی عمل کا تسلسل ضروری ہے اور باہمی مخالفت میں سیاسی جماعتوں کو ایک حد سے آگے نہیں جانا چاہیے، کیوں کہ خود اُن کا اور ملک میں جمہوریت کا نقصان ہوتا ہے، جس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اُٹھاتی ہیں۔

عمران خان کے ذریعے کرپشن کے جس بیانیے کو فروغ دیا گیا وہ یہ تھا کہ دو بدعنوان جماعتیں پاکستان پر قابض ہیں اور اپنی کرپشن کے لیے " باریاں" لے رہی ہیں،حالاں کہ تقریباً تمام جمہوری ممالک میں دو ہی بڑی جماعتیں ہوتی ہیں جو مرکز سے نسبتاً دائیں یا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں۔ امریکہ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک، برطانیہ میں ٹوری اور لیبر پارٹی یا بھارت میں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی،ان کے ساتھ بے شمار چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن اقتدار میں دو بڑی جماعتیں ہی آتی جاتی رہی ہیں، اسی طرح سیاسی عمل آگے بڑھتا ہے، مگر عمران خان نے اپنے کرپشن کے بیانیے میں یہ تاثر دیا کہ دو بڑی جماعتوں کا اقتدار میں آنا بہت خطرناک ہے۔

عمران خان نے بیانیے کی اس جنگ میں تمام حدود عبور کرلیں اور خود اپنے بیانات کی بنیاد زیادہ غلط الزامات پر رکھی اوراس بات کا بھی خیال نہ کیا کہ جن کو وہ نشانہ بنارہے ہیں وہ خود اُن کی بحثیت ایک کرکٹر کے عزت کرتے رہے اور شوکت خانم ہسپتال کے لیے بھی مدد کرتے رہے ہیں۔ بیانیے کی اس جنگ کے لیے خان صاحب نے خود ان لوگوں کو استعمال کیا جو پہلے ان ہی " بدعنوان" جماعتوں کا حصہ تھے۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے عمران خان کا ساتھ دیا اُن پر سب بدعنوانی کے الزامات دھل گئے اور وہ پاک صاف ہوکر خود اپنی سابقہ جماعتوں کو نشانہ بنانے لگے۔

ان کے علاوہ نوجوانوں کی ایک پوری فوج تیار کی گئی ۔ بیانیے کی اس جنگ میں ضروری ہے کہ خود اپنے رہ نما کو دیومالائی شخصیت کے طور پر پیش کیا جائے جو تمام غلطیوں اور بدعنوانیوں سے پاک ہو اور جو خود کو غلط نہیں کہتااور اگر شواہد اس کے برعکس ہوں تو وہ شواہد خود غلط ہوں گے۔ اس طرح پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں کے خلاف بیانیے کی جنگ خوب کرائی گئی ،بل کہ لڑائی گئی اور اس جنگ میں عمران خان اور ان کے حامیوں کو بھی مدد ملتی رہی، جس کے باعث وہ جوانوں کے ایک بڑے حلقے کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔

2 - بلند و بانگ وعدوں کا بیانیہ

یہ جنگ بھی عمران خان نے شروع کی،جس میں کروڑوں نوکریوں، کروڑوں گھروں کی تعمیر کا وعدہ، ریاست مدینہ کا وعدہ اور نہ جانے کون کون سے وعدے، بیانیے کی اس جنگ میں ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیے گئے۔

ان کے مخالف اتنے بلند و بانگ ہتھیار بیانیے کی جنگ میں استعمال نہیں کرسکتے تھے ،کیوں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں کو معلوم تھا کہ یہ دعوے حقیقت پر مبنی نہیں ہوں گے۔ لیکن بیانیے کی جنگ حقيقت سے نہیں بل کہ افسانوں سے لڑی جاتی ہے۔ عمران خان نے یہ افسانے خوب تراشے اور عوام کے ایک بڑے حلقے کو بری طرح متاثر کیا۔

سادہ لوح عوام یہی سمجھتے رہے کہ یہ تمام بیانیے درست ہیں لیکن وقت آنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب ڈھونگ اور ڈرامے بازی تھی۔ اس بیانیے کی جنگ میں غلط دعوے اور جھوٹے الزامات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ عمران خان اپنے ہدایت کاروں کی ہدایت پر بخوبی کردار ادا کرتے ہیں ،بالآخر خود ہدایت کاروں کو معلوم ہوگیا کہ اس کردار میں صرف اداکاری کی صلاحیت ہے ، مسائل حل کرنے کی نہ اہلیت ہے اور غالباً نہ ہی کوئی خواہش۔

اس بیانیے کی جنگ میں جو بلند وبانگ دعوے کیے گئے اُن میں یہ بھی شامل تھا کہ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونی ورسٹی بنایا جائے گا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس بھی عوام کے لیے کھول دیے جائیں گے،ان کی دیواریں گرادی جائیں گی تاکہ عوام کی وہاں تک رسائی ہوسکے۔ اس بیانیے کی جنگ کے یہ ہتھیار بھی خاصے کار آمد ثابت ہوئے اور عوام کے بڑے حلقے واقعتاً یہ ہی سمجھنے لگے۔مگر یہ ہتھیار بھی جلے ہوئے کارتوس ثابت ہوئے، جن سے صرف دھواں اور آواز برآمد ہوئی،کوئی خاص کارآمد نتیجہ نہ نکل سکا۔

اس طرح ایک ہتھیار عقائد کا استعمال اور روحانیت کا ڈھونگ بھی تھا۔ جگہ جگہ روحانیت کی فضیلت بیان کی جانے لگی اور "رحونیت" پر جدید سائنسی تحقیق کے " اعلی تعلیمی اداروں" کے قیام کی نوید سنائی گئی۔ اس طرح " موٹی ویشنل اسپیکرز " اور بعض مذہبی رہ نماؤں کو استعمال کیا گیا کہ وہ بیانیے کی اس جنگ کا حصہ بنیں اور کرپشن کو ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر لوگوں کی توجہ دیگر مسائل سے ہٹانے کی کوشش کریں۔ " چور ڈاکو " کی آوازیں لگائیں " سب لوٹ کر لے گئے" کا ورد کریں اور یہ نہ پوچھیں کہ پچھلے چالیس سال میں بیس برس تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتیں رہیں، مگر ان کی کرپشن کا کوئی ذکر نہ کرے۔

3 - ورلڈ کپ کا بیانیہ

بیانیے کی جنگ میں 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ بھی خوب استعمال کیا گیا گو کہ وہ اعزاز تمام ٹیم کی مشترکہ محنت سے حاصل کیا گیا تھا لیکن تاثر یہ دیا گیا کہ عمران خان صرف اپنی محنت سے یہ کپ جیت کر لائے تھے۔ اُن کی اکثر تقریروں کا آغاز و انجام کرکٹ کے ذکر سے ہوتا رہا اور اب بھی ہوتا ہے۔ " دیکھیں جب میں کپتان تھا " سے شروع کرکے "جب میں نے ورلڈ کپ جیتا" تک متواتر یہ کوشش کی جاتی رہی کہ ایک گیارہ رکنی ٹیم کا کپتان کوئی مافوق الفطرت شخص ہوتا ہے جو اپنے کھیل کے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے ملک اور عوام کے تمام مسائل حل کرسکتا ہے، بار بار اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ میں نے ٹیم ایسے ترتیب دی، اس طرح اُن کی تربیت کی اور یوں اُن کی رہ نمائی کی " دراصل اس جنگ کو جیتنے کی ایک کوشش تھی کہ وہ کھیل کی طرح ملک کو بھی ورلڈ کپ دلا دیں گے۔

اس جنگ میں بھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے پاس کوئی ایسا بیانیہ نہیں تھا جس کی مثال دے کر وہ خود کو عالمی چیمپئن ثابت کرسکیں۔ پیپلزپارٹی کے پاس تو شہیدوں کے ذکر کے علاوہ بیانیہ نہیں تھا اور نواز شریف کے بیانیے بدلتے رہے اور " ووٹ کو عزت دو" کہتے رہے۔

4 - عالمی عزت و احترام کا بیانیہ

اقتدار میں آنے کے بعد بیانیے کی جنگ میں یہ بات بھی شامل ہوگئی کہ عمران خان صاحب نہ صرف اسلامی دنیا بل کہ عالمی مسائل کے حل کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا گئے تو ٹرمپ سے ملنے کے بعد یہ بات بڑے شور سے بیان کی گئی کہ ٹرمپ نے عمران خان سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکا اور ایران میں ثالثی کا کردار ادا کریں۔

سعودی عرب گئے تو واپس آکر ترکی، انڈونیشیا اور ملیشیا سے مل کر ایک اور عالمی اسلامی بلاک کے رہ نما بننے کے بیانیے کو عام کرنے کی کوشش کی جس سے سعودی عرب بھی ناراض ہوا اور کوالالمپور بھی۔ اس طرح بیانیے کی جنگ کا یہ ہتھیار بھی ٹھس سے بیٹھ گیا۔

اقوام متحدہ کو بھی بیانیے کی اس جنگ میں استعمال کیا گیا اور عمران خان کے خطاب کو عالمی کارنامہ قرار دیا گیا ،جس سے اقوامِ متحدہ کے ایوان لرز اٹھے۔

اسی طرح دعوے کیے گئے کہ مسئلہ کشمیر کو "تاریخ میں پہلی مرتبہ" اتنی شدت سے عالمی سطح پر اٹھایا گیا ہے جس سے بھارت تھر تھر کانپ رہا ہے، مگر یہ بیانیہ بھی نہ چل سکا کیوں کہ بھارت نے کشمیر کو جو تھوڑی بہت خود مختاری تھی وہ بھی چھین کر مقبوضہ علاقوں کے الحاق کا اعلان کردیا۔

5 - سازش کا بیانیہ

2022 کے اوائل میں ایک اور نئے بیانیے کی جنگ شروع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ ایک سازش تیار ہورہی ہے جس کا شکار اس وقت کی حکومت اور عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش ہوگی۔

اپریل 2022 میں ایک آئینی اور قانونی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت بدلنے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا کہ اصل سازش تو یہ تھی کہ حکومت کسی بھی طرح سے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائے گی جس کے لیے چاہے جتنے بھی غیر آئینی اور غیر قانونی حربے نہ آزمانے پڑیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے تو تحریک عدم اعتماد کے خلاف خود ایک ایسے بیانیے کی جنگ شروع کی گئی جس کے تحت اسے امریکی سازش قرار دیا گیا۔

ایک بیانیے میں ایک سائفر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جس میں پاکستان کے ایک سفیر نے کسی گفتگو کا حوالہ دیا تھا کہ غیر ملکی ممالک عمران خان کی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ بس اسی کو بنیاد بنا کر ایک نئی جنگ چھڑ دی گئی۔

ایک کاغذ کو ہوا میں لہرا کر اس بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے امریکا نے واقعی کوئی دھمکی آمیز خط لکھا ہے، جب کہ وہ کاغذ صرف ایک پیغام پر مشتمل تھا جو خود پاکستانی سفیر نے لکھا تھا لیکن تمام تردیدوں کے باوجود بیانیے کی جنگ کو جاری رکھا گیا اور مزید پھیلایا گیا جس کے نتیجے میں بین الاقوامی طور پر اس بات کے چرچے ہوئے اور نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوئی بل کہ تعلقات پر بھی اثر پڑا۔

سازشی بیانیے کی اس جنگ میں کچھ رہ نما خود کو معلوم ثابت کرنے کے چکر میں ایک ایسی داستان گڑھ لیتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اس جنگ میں ھدف کا تعین بھی نہیں کیا جاتا اور تمام اطراف میں تیر چلائے جاتے ہیں یعنی پہلے تو حزب مخالف کو اس سازش کا ذمہ دار قرار دیا گیا ،پھر کسی غیر ملک کا حوالہ دیا گیا، پھر امریکا کو بھی شامل کرلیا گیا، اس طرح اس جنگ کے کرداروں میں اضافہ ہوتااور بیانیے کو طول دیا جانے لگا۔ لیکن 2022 کے آخر تک اس بیانیے کی جنگ میں وہ تیزی نہ رہی، کیوں کہ ہر طرف سے ثابت ہوگیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔

6 - غداری کا بیانیہ

اس جنگ میں ناکامی ہوتی دیکھ کر غداری کے بیانیے کو پروان چڑھایا گیا۔ میر جعفر اور میر صادق کے الفاظ استعمال کیے گئے اور براہ راست فوج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ افسروں کو ھدف بنایا گیا۔ اس جنگ کا مقصد یہ تھا کہ فوج کو متنازعہ بنایا جائے، اس پر الزام لگایا جائے کہ اس نے عمران خان کو بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا یعنی اس غداری کے بیانیے کی جنگ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ فوج کا غیر جانب دار ہونا غلط تھا اور اُسے عمران خان کی جانب سے سیاست میں مداخلت کرکے خان صاحب کی حکومت کو بچانا چاہیے تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے فوج پر پے درپے حملے کیے اور تقریباً تمام اعلیٰ ترین اداروں پر سوال اُٹھائے کہ وہ غیر جانب کیوں ہیں۔

اس غداری کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے الیکشن کمیشن کو بھی ھدف بنایا اور عدلیہ کو بھی یعنی تمام وہ لوگ اور ادارے جو عمران خان ساتھ نہیں تھے وہ سب غدار ٹہرے اور انہیں اس جنگ میں کھلم کھلا دھمکیاں دی گئیں، جس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی ماحول اور خراب ہوتا گیا لیکن نہ بدزبانی میں کمی آئی اور نہ بیانیے کی جنگ میں۔

اس کے ساتھ ہی میڈیا کے وہ تمام لوگ جو حقائق سامنے لانے کی کوشش کررہے تھے اُن کو بھی غداروں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ،اس طرح صرف وہ صحافی قابل ٹہرے جو اس جنگ میں عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔

جب صحافی ارشد شریف کا قتل ہوا اس کو بھی اپنے مخالفین کی سازش قرار دیا گیا اور حقائق کو مزید گنجلک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس بیانیے میں تمام سیاسی رہ نما غدار قرار پائے۔ فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، میڈیا، وکلاء تنظیمیں اور وہ سارے افراد جو عمران خان کی حرکتوں کا پردہ چاک کر رہے تھے۔ اس جنگ میں ایسا معلوم ہونے لگا کہ پی ٹی آئی کے رہ نماؤں اور کارکنوں کے علاوہ سب غدار ہیں اور قابل گردن زدنی ہیں، پھر ایسی ویڈیو بنا کر چلائی گئیں جن میں کھلم کھلا فوج کے اعلیٰ افسروں کو غداری کے تمغے دیے گئے اور دھمکیاں سنائی گئیں۔

7 - عمران مخالف بیانیے

لیکن ایسی بات نہیں کہ صرف عمران خان بیانیے کی جنگ کر رہے تھے، پی ڈی ایم بھی شامل تھی، اس نے جو بیانیہ چلایا اس میں عمران خان صاحب نااہل تھے اور پی ڈی ایم اہل ترین ،جو اقتدار میں آکر ملک کے مسائل حل کرسکتی تھی۔ پی ڈی ایم نے بیانیے کی جو جنگ لڑی اس میں ملک دیوالیہ ہونے کے دھانے پر کھڑا تھا۔ ملک میں شدید مہنگائی تھی ،جس کے ذمہ دار صرف عمران خان اور تحریک انصاف تھی۔

پی ڈی ایم بیانیے کی یہ جنگ ہار گئی، کیوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس نے بھی وہ ہی کچھ کیا جو عمران خان کی حکومت کر رہی تھی۔ مہنگائی بدستور بڑھتی رہی۔ تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا اور پھر آئی ایم ایف سے بھی اسی طرح قرضے لیے گئے جن پر پہلے اعتراض کیا جاتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کو اپنے بیانیے صحیح ثابت کرنے کے لیے مہنگائی کم کرنا تھی جو نہ ہو سکی اور وہ کشکول جو عمران خان لے کر گھوم رہے تھے اسے توڑنا چاہیے تھا مگر وہ ہی کشکول خود نئی حکومت نے سنبھال لیا اور پھر وہ ہی مانگے تانگے کی حکومت چلنے لگی۔

اسی طرح " ووٹ کو عزت دو " کا جو بیانیہ نواز شریف نے شروع کیا تھا وہ اپنی موت آپ مر گیا جب خود نواز شريف کی پارٹی نے اقتدار سنبھالا اور فوج کا دم بھرنے لگی ،بل کہ تمام پُرانے بیانیے سے منحرف ہوگئی، اس طرح پی ڈی ایم کا بیانیہ بھی ٹھس ہوگیا۔

8 - توشہ خانے کا بیانیہ

توشہ خانے سے مال غنیمت سمجھ کر اٹھائے جانے والے تحفے حکومتِ وقت کے بڑے عہدے دار اُونے پونے قیمتیں ادا کر کے لے جاتے رہے ہیں، مگر جس طرح عمران خان کی حکومت میں ان تحائف پر ہاتھ صاف کیے گئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ بیانیے کی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حزب مخالف نے الزام لگایا کہ عمران خان نے توشہ خانے سے چیزیں نکال کر بیچ دی ہیں۔

ان باتوں میں صداقت تھی لیکن عمران خان کوئی وضاحت پیش نہ کرسکے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ یہ بیانیہ اس وقت مزید زور پکڑ گیا جب شواہد سامنے آنے لگے اور دعوے کیے گئے کہ سعودی شہزادے کی جانب سے دی جانے والی گھڑی کو بھی خریداروں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔

سال کے آخر تک وہ خریدار بھی منظر عام پر آگئے جنہوں نے فرح گوگی اور شہزاد اکبر کی معرفت عمران خان کو سرکاری تحفے میں ملنے والے تحائف بیچے تھے۔

خان صاحب بیانیے کی یہ جنگ بری طرح ہار گئے، کیوں کہ اُن کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ پچھلی حکومتیں بھی تو توشہ خانے سے تحائف خریدتی رہی ہیں، مگر بڑا فرق یہ تھا کہ کسی بھی حکومت نے ملک کی اتنی بدنامی نہیں کرائی کہ ذاتی استعمال کے بجائے دیگر خریداروں کو تحائف بیچے۔

9 - اعلی تقرری پر بیانیے کی جنگ

ایک اور بیانیے کی جنگ جو شروع کی گئی وہ فوجی سربراہ کی تقرری کے بارے میں تھی۔ عمران خان نے یہ بیانیہ اس لیے تشکیل دیا کہ نہ صرف اس تقرری کو متنازع بنایا جائے بل کہ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ " چور ڈاکو " سربراہ کی تقرری کے حق دار نہیں ہیں۔ اس جنگ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ میر جعفر اور میر صادق یعنی غدارانِ وطن ملک کی قسمت سے کھیل رہے ہیں اور یہ حق صرف عمران خان کو حاصل ہے کہ وہ صحیح فوجی سربراہ کو مقرر کر سکیں۔

اس جنگ کا فوج نے شدید نوٹس لیا اور اعلیٰ فوجی افسران نے پریس کانفرنس کرکے عمران خان کے جھوٹے بیانیے کا پردہ فاش کیا۔ جب یہ جنگ بہت آگے چلی گئی تو عمران خان نے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لئے لانگ مارچ کا بیانیہ مرتب کیا اور اس کے لیے نومبر کے او اخرکا انتخاب کیا گیا، کیوں کہ انہی دنوں نئے فوجی سربراہ کا تقرر ہونا تھا لیکن یہ تمام بیانیے دم توڑ گئے اور عمران خان مجموعی طور پر بیانیے کی جنگیں ہارتے چلے گئے۔

اس کے مقابلے میں دیگر جماعتوں کو بہتر بیانیے تشکیل دینے کی ضرورت تھی جو نہ ہوسکا۔ اب لگتا ایسا ہے کہ عمرانی بیانیے خاتمے کے قریب ہیں۔