میئر کراچی: پیپلز پارٹی کا دعویٰ خواب یا حقیقت

January 05, 2023

متحدہ قومی موومنٹ نے بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندیوں کے معاملے پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی ہے، اس دھمکی کے بعد پیپلزپارٹی نے اجلاس بھی طلب کرلیا ہے، بعض حلقوں کے مطابق حکومت سے علیحدگی کی دھمکی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی ملی بھگت ہے، یہ دونوں جماعتیں سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتیں، حکومت سندھ الیکشن کمیشن کو تیسری بار انتخاب ملتوی کرنے کے لیے خط لکھ چکی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخاب کی تیاریوں میں جت گئی ہے امیدواروں کی جانب سے عوامی رابطہ مہم نظر نہیں آرہی تاہم پارٹی رہنما اپنی اپنی جماعتوں کے لیے بلدیاتی انتخاب کی مہم چلا رہیں ہیں۔

پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نےکہا کہ کراچی کسی ایک جماعت اورزبان بولنے والوں کا ہے، پیپلز پارٹی کہتی ہے یہ شہر ہر زبان بولنے والوں کا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ کون جیتے گا کون ہارے گا پندرہ جنوری کو بلدیاتی الیکشن ہوں گے کراچی کا میئرجیالاہوگا ہم جو کہتے ہیں وہ کردکھاتے ہیں الیکشن کا رونا رونے والے خود الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ ایک سال میں پیپلزپارٹی نے وہ کام کرکے دکھایا جو وعدہ کیا تھا۔

جبکہ دوسری جانب بلدیاتی انتخاب کی راہ ہموار ہوتے دیکھ کر ایم کیوایم کے انضمام کی کوششیں تیزی ہوگئی ہیں اس ضمن میں گورنر ہاوس میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خالد مقبول صدیقی، پی ایس پی کا وفد اور ڈاکٹر فاروق ستار ملاقاتیں کرچکے ہیں گورنرسندھ کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے انضمام کی خبر جلد مل جائے گی تودوسری طرف ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں میں اتحاد کی کوششوں میں رکاوٹیں بھی سامنے آنے لگی ہے ایم کیو ایم کو پی ایس پی کی جانب سے پارٹی کا نام، پرچم اور انتخابی نشان کو تبدیل کرنے کادباو ہے، تاہم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی دباو قابل قبول نہیں ہے۔

مگر انہوںنےاس پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے، جبکہ پی ایس پی کی طرف سے بھی پارٹی کے نام، پرچم اور انتخابی نشان کو تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اس حوالے سے اگلے دو سے تین دن میں صورت حال مزید واضح ہوگی۔تاہم ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رکاوٹیں جلد دور ہوجائی گی بعض حلقے یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ اگر ایم کیوا یم کے تمام دھڑے متحد بھی ہوگئے تو کیا وہ عوام کے لیے قابل قبول ہوں گے اور اس صورت میں کچھ رہنما ایم کیو ایم لندن پر تواتر کے ساتھ الزامات بھی لگاتے رہے ہیں اور انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیںکیا ہے۔

دوسری جانب حکومت میں رہتے ہوئے ایم کیو ایم نے کراچی کے لیے کوئی بڑا پیکیج حاصل نہیں کیا اور نا ہی اپنے معاہدہ پر عمل درآمد کراسکی ہے جس کا اعتراف خالد مقبول صدیقی نے بھی کیا ہے ایم کیو ایم کے رہنما عوام میں جب جاتے ہیں تو انہیں ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پہلے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کو شاہ فیصل کالونی میں اشتعال کا سامنا کرناپڑا تو چند روز قبل گورنرسندھ پر چونا پھینکا گیا اس وقت ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی بھی ان کے ہمراہ تھے یہ واقعات ظاہرکرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہیں جو ماضی میں ہوا کرتی تھی ایم کیو ایم کے انضمام کی کوشیشوں پر تنقید کرتے ہوئے۔

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پھر خیال آیا ہے کہ ہماری پارٹی بھی ہونی چاہیے سارے غنڈہ جمع کر کے ایم کیو ایم بنا دی گئی انہوں نے اس انضمام کو اسٹیبلشمنٹ کا شاخسانہ قرار دیا ہے تاہم اس کے باوجود دوسرے مرحلے کے انتخاب میں پی ٹی آئی، جما عت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی پی پی میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے پی پی پی کے چیئرمین نے گرچہ کراچی میں میئرلانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں پی پی پی کراچی کے دو اضلاع تک محدود ہے کراچی میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے سبب عوام پی پی پی سے بھی خوش نہیں۔

اب اجلاس میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کراچی اور حیدرآباد کا دورہ کرکے رابطہ مہم چلانے کی دعوت دی گئی ہے اس سے یقیناً پی ٹی آئی کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوگا یہ بھی کہاجارہا ہے خاموش ووٹرزپی ٹی آئی کے ساتھ ہے جماعت اسلامی نے بھی عوام رابطہ مہم جاری رکھی ہوئی ہے تاہم مخصوص مکتبہ فکر کے سبب تن تنہاوہ بھی قطعی اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی تحریک لبیک بلدیاتی انتخاب میں سرپرائز دے سکتی ہے تاہم اس کا معاملہ بھی جماعت اسلامی والا ہے بلدیاتی انتخاب کا نقارہ بجنے کے بعد سیاسی تنائو میں اضافہ ہوا ہے۔

ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم بلدیاتی انتخاب کے لیے تیار ہے سندھ کے بہت سارے مسائل پر ہمارا پی پی پی معاہدہ ہوا جن میں ایک اہم معاہدہ شہری علاقوں کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے تھا ہر حلقہ بندیاں آئین اور قانون کے تحت ہوں اس بات کو دیگر جماعتوں سمیت پی پی پی نے بھی تسلیم کیا ان حلقوں بندیوں پر صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوسکتے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سپریم کورٹ بھی گئے اور چیف جسٹس آف پاکستان نے ہمارے تحفظات کو سنا اور مطالبات کو تسلیم کیا،گزشتہ 8، 10 مہینوں میں پیپلز پارٹی سے بھی متعدد ملاقاتیں اور میٹنگز ہوئیں جس میں ہمارے تمام مطالبات کو تسلیم تو کیا تھا لیکن اب تک عمل پیرا نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں جنرل ورکرز اجلاس طلب کرینگے جس میں یہ تمام صورتحال کارکنان کے سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال کیا جائیگا کہ حکومت میں رہتے ہوئے احتجاج کیا جائے یہ حکومت سے علیحدگی اختیار کی جائے کیونکہ ہم سے کئے گئے معاہدوں پر ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے دستخط کئے تھے اس صورتحال میں عوام کے جذبات پر مزیدقابو رکھنا اور صبر کی تلقین کرتے رہنااب ہمارے لئے بھی مشکل ہوتا جارہا ہے میرا سوال الیکشن کمیشن کے افسران سے ہے کہ آپ نے حلقہ بندیوں کی ذمہ داری سندھ حکومت کو کیوں سونپ رکھی ہے؟

یہ عمل آئین و قانون کے متضادہے اور اگر ان حلقہ بندیوں پر کوئی فیصلہ نہیں آتا تو ہم اور عوام عدالت میں جائیں گے اور سڑکوں کا راستہ بھی اختیار کریں گے انصاف امن کی ضمانت دیتا ہے ارباب اختیار بتائیں کہ اب ہمارے پاس اور کیا رہ جاتا ہے ہم اپنا مقدمہ الیکشن کمیشن اسلام آباد اوراعلیٰ عدالتوں میں لیکر جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ وزیر اعظم پاکستان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان تمام معاملات کو دیکھیں انتخابات کیوں بار بار ملتوی ہورہے ہیں۔