صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ خصوصیات و امتیازات کا روشن باب

January 20, 2023

مولانا کامران اجمل

اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور بعض انبیائے کرام علیہم السلام کو وہ خصوصیات عطا فرمائی ہیں، جس میں ان ہی کی شہرت زیادہ ہوئی، اگر چہ دوسروں سے نفی نہیں تھی ، لیکن پھر بھی ان کے ساتھ یہ خصوصیت ذکر کی گئی، گویا کہ بدرجۂ اتم انہی میں وہ صفت پائی جاتی تھی ،قرآن کریم میں جا بجا اس طرح کی مثالیں موجود ہیں کہ کہیں پر کسی نبی کے بارے میں فرمایا ’’ اصدقہم ‘‘ کسی کے بارے میں فرمایا ’’ کلیم اللہ ‘‘ ، کسی کے لیے کسی اور خاصیت کا ذکر فرمایا ہے ، اسی طرح حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی معاملہ ہے ،کسی صحابی کی کوئی خاصیت ذکر کی گئی، کسی کی کوئی اور ،چنانچہ کسی کو ’’ارحم امتی ‘‘ کہا گیا ، کسی کو ’’اشدھم فی امر اللہ ‘‘ کہا گیا ، کسی کو ’’اصد قہم حیاء ‘‘ فرمایا گیا ، کسی کو ’’اقضاھم ‘‘ کہا گیا ، اس کا یہ مطلب حتمی نہیں ہے کہ ارحم امتی صرف وہی صحابی ہیں ، بلکہ ممکن ہے ان کے علاوہ کسی اور میں بھی امت کے لیے اسی طرح رحمت کا جذبہ رہا ہو ، لیکن ان کی خصوصیت ایسی تھی گویا انہی میں تھی، دوسروں سے متعلق اس میں تذکرہ نہیں۔

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ کرام ؓ میں سے بنایا تھا، جنہیں بہت سی خصوصیات و امتیازات سے نوازا گیا ، صدیقیت کا شرف ہو یا پھر قرآن کریم میں رفاقت کا اظہار ، یاان سے مغفرت کی خواہش کا پوچھنا ، یہ سارے کام حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے حصے میں ہی آئے ، ایک ایسی ذات جنہوں نے خود سے زیادہ اپنے رفیق یعنی رسول اللہ ﷺپر اعتماد کیا ، اپنا سب کچھ رسول اللہﷺ پر نچھاور کرنے والے تو سب صحابہ کرامؓ تھے ،لیکن اپنا سب کچھ حقیقت میں رسول اللہﷺ پر نثار کر دینے والے حضورﷺ کے دور میں حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ ہی تھے۔ اس حوالے سے اقبال نے کیا خوب کہا ہےؔ

پروانے کو چراغ، ہے بلبل کو پھول بس

صدیق ؓکے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

ذیل میں ان کی صدیقیت کی چند خصوصیات کا تذکرہ کیا جارہا ہے ، اگرچہ ان کی خصوصیات پر تومستقل کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور ان کی شان میں کتابیں لکھی بھی گئی ہیں۔

۱۔صدیقیت: حق ِصداقت اوردوستی نبھانے کا موقع اس دنیا میں خال خال لوگوں کو ہی ملتا ہے ، اوراصل حمایت اور دوستی وہی کہ دوست کی اس وقت حمایت اور طرف داری کی جائے ، جب ساری دنیا اس کی مخالف ہو جائے ، یہاں تک کہ دوست پر اس قدر یقین ہو کہ اگر وہ بات خود اپنے نظریے کے بھی خلاف ہو تو تب بھی اسے قبول کرلیا جائے، خلیفۂ اول،امیر المومنین،خلیفۃ المسلین حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓکا معاملہ بھی ایسا ہی تھا کہ ابتدا میں پوچھنے والوں نے واقعۂ معراج کے متعلق اس طرح پوچھا کہ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ میں ایک رات میں بیت المقدس گیا، وہاں سے آسمان پر گیا، پھر وہاں سے واپس آکر صبح اپنے گھر میں تھا ،کیا یہ بات صحیح ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ، پوچھا گیا، اگر یہ بات آپ کے رفیق محمد ﷺ کہیں ، تو فرمایا اگر وہ کہیں تو ایسا ممکن ہے ، ان کے اسی اعتمادوتصدیق کی وجہ سے انہیں صدیقیت کا لقب ملا۔

رسول اللہﷺ نے تو ایک مرتبہ یہ تک ارشاد فرما یا کہ میں نے سب کے احسانوں کا بدلہ دے دیا ہے، سوائے ’’ ابوبکر ‘‘ کے کہ ان کے احسان کا بدلہ خود اللہ تعالیٰ ہی انہیں عطا فرمائے گا ، اور صدیقیت کا یہ معاملہ تو ایسا رہا کہ خود رسول اللہﷺ نے بھی غار ثور میں وہ جملے اپنے محبوب دوست کے لیے استعمال فرمائے ،جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا جزء بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوستی پر دائمی مہر ثبت کردی، صرف سیدنا صدیق اکبر ؓہی وہ ہستی ہیں جن کے صحابی ہونے کو قرآن کریم نے واقعہ کی صورت میں ذکر فرمایا ہے: (ترجمہ) اس وقت کو یاد کرو جب رسول اللہﷺ نے اپنے دوست کو کہا کہ پریشان مت ہو ،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

۲۔اپنا سب کچھ نچھاور کردینا :۔حضرت صدیق اکبر ؓ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کے فرمانے پر اپنے گھر کا سب کچھ دے دیا اور خود اپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھا ، جب رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے تو دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگرچہ بہت سارا ساز وسامان لے کر آئے تھے ،لیکن حضرت صدیق اکبرؓ سے آقائے نامدارﷺ نے سوال ہی عجیب پوچھ لیا : ’’ ابوبکر ،گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ ، فرمایا : میرے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام ہی کافی ہے ‘‘۔

۳۔ چار پشتوں کی صحابیت:حضرت سید نا صدیق اکبرؓ کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ ان کی اولاد اور والد سمیت چار پشتیں نہ صرف مسلمان تھیں، بلکہ اس گھرانے کے تمام افراد صحابیت کا شرف بھی حاصل کرچکے ہیں ، یعنی حضرت محمد بن عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق بن ابی قحافہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ان میں سے محمد بھی صحابی ہیں ، ان کے والد حضرت عبدالرحمن بھی صحابی ہیں ، ان کے والد حضرت صدیق اکبر ؓ بھی صحابی ہیں، اور ان کے والد حضرت ابو قحافہ ؓ بھی صحابی ہیں ، گویا ایک ہی گھر میں چار پشتیں صحابی ہیں ، یہ شرف بھی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں صرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حاصل ہے۔

۴۔ حضوراکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں نماز کی امامت:رسول اللہﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ہی امام مقرر کیا ، اور حضورﷺ کے حکم سے حضورﷺ کی موجودگی میں ۱۷ نمازیں حضرت صدیق اکبرؓ نے ہی پڑھائی ہیں۔

۵۔حضوراکرم ﷺ کے پہلو میں تدفین :۔ تمام عمرآپ علیہ السلام کے ساتھ رہنے والے ، آپ کے رفیق سفر و حضر، سیدنا صدیق اکبرؓ، حضورﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں، اور تاقیامت ان کے ساتھ رہیں گے اور قیامت میں بھی انہیں کے ساتھ اٹھیں گے ، پہلے پر رسول اللہﷺ اور دوسرے پر حضرت صدیق اکبرؓ ، یہ خصوصیت بھی صرف آپ ہی کو حاصل ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سی خصوصیات ہیں جنہیں مختلف کتب میں ذکر کیا گیا ہے ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ سے حضرت صدیق اکبرؓ کو جو خصوصیت حاصل ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ ہماری اور پوری امت کی طرف سے انہی جزائے خیر عطا فرمائے ۔(آمین)