بے بسی سی بے بسی ہے

January 28, 2023

سنجیدہ طبع لوگ کچھ عرصے سے ہندوستان ، پاکستان سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اگلے بیس برس کیلئے مسئلہ کشمیر پہ گفتگو یا کسی کے ذریعہ مصالحت کے موضوع کو مکمل طور پر freeze (یعنی منجمد) کردیا جائے۔سبب یہ کہ دونوں ملکوںمیںموجود جواں نسل مذہب کی نعرے بازی میں غلطاں ہے۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک نے نقاب زدہ سیاسی مہروں کی بہت آنیاںجانیاں دیکھ لیں۔ جو آیا پاکستان میں قرض چڑھا کر چلا گیا۔ اب کیاہورہا ہے۔ جتنی نام نہاد پارٹیاں ہیں وہ سوکنوں کی طرح لڑ رہی ہیں۔سیاسی بصیرت دھیلے کی نہیں۔ ہمارے سیاسی لچھن دیکھ کر ، عرب ممالک آپ سے زیادہ انڈیا کے ساتھ تجارت اور نئے منصوبے بنا رہے ہیں اور پاکستان کو قرض دینے کیلئے بھی شرطیں لگا رہے ہیں۔وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں مثال کےطور پر کے پی میں معزول صوبائی حکومت نے سترہ بلٹ پروف گاڑیوں کا آرڈر دیا تھا جبکہ ہر روز اور ر ات، دہشت گردی ہو رہی ہے ، سندھ کی حکومت تقریباً لاچار ہے کہ وہ ہتھیار جو ڈاکوئوں کے پاس ہیں ایسے ہتھیار تو حکومت نے آرڈر بھی نہیں کئے۔ بلوچستان میں تو حکومت نام کی چیز کوئی نہیں سارے مچھیرے ٹرالرز کے ہاتھوں روزی کمانے میں تنگ دست ہیں اور پنجاب کے کیا کہنے کہ معزول بادشاہ کے حکم نامے چل رہے ہیں۔ میں نہ مانوں کا فلسفہ ہے۔ جبکہ ہندوستان میں بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھ کر سرکار کو پتنگے لگے ہوئے ہیں۔ مسجدوں میں اذان پر جرمانے ہو رہے ہیں۔ ادھر افغانستان اورایران عورتوں کو مقید کرنے پر بضد ہیں ۔ جبکہ سعودی عرب میں امیتابھ بچن کے جلوے ہی جلوے اور پاکستان چین سے ٹماٹر اور پیاز خرید رہا ہے جبکہ انڈیا میں پندرہ روپے کلو ٹماٹرفروخت ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹماٹر اور ڈالر کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سے ڈالر سے لے کر بھینس تک کابل جا رہی ہے ۔ ایران سے 22روپےکلو آٹا اسمگل ہو رہا ہے۔ بلوچوں کو یہ سہولت اچھی لگ رہی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ برس سے قیمتوں کا طوفان بجلی اور گیس کے بلوں کے علاوہ روز مرہ کی اشیاکی شکل میں بڑھتا رہا تو ہم سب متوسط اور پنشن والوں نے بکری کا گوشت کھانا چھوڑ دیا دیکھا دیکھی گائے کے گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو سوچاکہ مرغی 5سو روپے فی کلو آتی ہے چلو ہفتے میں ایک دن یہ عیاشی کر لیتے ہیں۔ بھلا ہو شادیوں کا اور مرغیوں کی فیڈ، کراچی سمندر کے کنارے، کچھ اسباب اور تنازغات کے باعث نہ مرغیوں کی فیڈ ہے نہ ادویات ۔ آٹے کا رونا کیا اور تندوری روٹی کا رونا کیا۔ دوائیاں بھی پھنسی ہوئی ہیں۔ اب جب یہ تمام طرح کے گوشت گویا نابود ہوئے تو ہم نے کہا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں تازہ سبزیاں کھائو اور دالیں پروٹین کے لئے خوراک بنائو اب پتہ چلا کہ یہ منہ اور مسور کی دال محاورے کا کیا مطلب ہے۔ کوئی دال بھی تین سو روپے حتی کہ مولیاں بھی تل کر فروخت ہونے لگیں۔ اورگندلوں کا ساگ، سونے کے بھائو ہو گیا ہے ۔ مکئی کی روٹی کا بھی فیشن چل گیا ہے۔

اب خیال کے گھوڑے دوڑائے، ارے ہمارے ملک میں جوار اور باجرہ بھی بہت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شوگر کے مرض کو بھی قابو میں کرتا ہے۔ مگرہمارا نخرہ تنور کی تازہ روٹی ۔ ہمارے سارے بزرگ سردیوں میں باجرے کی ٹکیاں بنایا کرتے تھے۔ یہ ٹی وی کے کھانا بنانے والے شیف خواتین و حضرات ، مشروم اورشرمپ کو چھوڑ کر باجرے اور جوار کے بسکٹ، کھیر اورحلوے بنانا سکھائیں۔ فیکٹری والے نمکو بھی مکئی اورباجرے کی بنا کر بیچیں۔

ہمارے ملک میں سویابین اگانے، تیل نکالنے اورٹافو بنانے کی تحریک نہیں کی گئی۔ انڈیا میں ایک شخص نےاپنے تین منزلہ مکان میں سبزیاں لگائی ہیں۔ اس نے سنگاپور جاکر سیکھا کہ کس طرح نلکوں کے پانی میں کھاد چلا کر سارے پودوںکو ضرورت کی خوراک مل سکتی ہے۔ اس وقت وہ صاف پانی میںاگائی سبزیاں بیرون ملک فروخت کررہا ہے۔ ہمارے یہاں اتنی بھینسیں اور گائیں ہیں۔ اپنےملک میں ڈینش پنیر ملتا ہے۔ پاکستانی پنیر ہے ہی نہیں۔

ہمارے اخراجات کم کرنے کے لئے وزیر اعظم نے کمیٹی بنائی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے آپ روز ایک نیا مشیر رکھتے ہیں۔ جوآپ کو لاکھوں میں پڑتا ہے۔ جبکہ چھوٹا اسٹاف جوبسوں کے ذریعہ دفتر پہنچتا ہے۔ آپ اس کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے پڑھا ہو گا کہ سری لنکا بھی ہماری طرح اللے تللےکرنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچا ہے کہ باقی اخراجات کم کرنے کے ساتھ فوج بھی 30فی صد کم کر دی جائے۔آج کل رومیلاتھاپر،مشہور انڈین تاریخ دان، تحقیق کے بعد لکھ رہی ہیں کہ انگریز جیمز مل نے انڈیا کے سیاسی حالات دیکھ کر لکھا تھا کہ انڈیا میں دو قوموں کا راج ہے۔ پہلے یہاں ہندو راج اشوک کے دور میں، پھر مغلیہ راج بابر سے لے کر جلا وطن بادشاہ تک۔ پھر تقسیم کے بعد مسلم اور ہندو راج گویا 1817سےانڈیا میں دو قومی نظریہ ہی چلتا رہا ہے۔ وہ دو قومی نظریہ ، مذہبی نظریے میں مدغم کر دیا گیا یوں مذہبی شدت پسند، دونوں کیا، ایران ، افغانستان، پاکستان اورانڈیا پر حاوی آگئے۔ جماعت اسلامی کراچی الیکشن کیا جیتی کہ کرسی کے لئے ہر ایک کےساتھ بیٹھنے کو تیار ہے۔اس طرح کی باتیں کون کرے گا کہ یہ سارے ملک مذہبی نخوت سے بازآئیں۔جیسے انڈیا میں راہول گاندھی نے قدم اٹھایا اور لوگ بھی اس کےساتھ نکل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی نوجوانوں کوسامنے آنا ہو گا ساری پارٹیوں کو اپنا آئین آج کے حالات کے مطابق بدلنا پڑے گا۔ یہ جو ملک میں چالیس کےقریب جماعتیں ہیںان کوختم کر کے قانون سازی کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں کو محدود کرناہو گا۔ جو لوگ پاکستان میں بتیس گاڑیوں کے جلومیں سڑک سے گزرتے تھے۔ دیکھیں وہی صاحب دبئی میں ریڈلائٹ کھلنے کے انتظار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔یورپین ممالک بھی کچھ ہوش کریں کہ یوکرین کو امریکہ سے لے کر جرمن تک ٹینک فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ صرف روس کو شکست دینےکے لئے ،دونوں طرف کے سیاستدانوں کو شرم نہیں آتی کہ دونوں طرف چاہے فوجی ہو کہ گھروں کےامن پسند، یہ سب انسان ہیں جو مارے جارہے ہیں اور کیوں اپنی اپنی حکومتوں کو قائم رکھنے کو۔ اب تواقوام متحدہ کی بھی کوئی نہیں سنتا۔