بنگلہ دیش اور پاکستان، ٹوٹے ہوئے تارے؟

January 28, 2023

دانش و صحافت کی زبان میں عام کہاوت بن گیا یہ تھیسز ہرگز درست نہیں کہ ’’تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیںسیکھتا‘‘تاریخ کا گہرا مطالعہ و تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ کہاوت یا تھیسز غلط ہی نہیں گمراہ کن بھی ہے ،یوں کہ یہ یقین پیدا کرنا کہ تاریخ سے کوئی سبق و رہنمائی نہیں لی جا سکتی ۔کسی بھی قوم کے رہنمائوں اور پالیسی و فیصلہ سازوں کو اپنی اصلاح وسمت کو درست کرنے کے بڑے ذریعے سے لاپروا بنانے کے مترادف ہے۔ اس کی زندہ مثال ہمارے اپنے ملک پر صادق آتی ہے کہ کیا ہمارے حکمران بلکہ تمام ریاستی آئینی ادارے، صحافی اور دانشور و دیگر پوٹینشل سیکشنز آف سوسائٹی بحیثیت مجموعی اپنے رویے میں تاریخ سے لاپروا ہیں ۔پالیسی اور فیصلہ سازی میں اس سے مدد لینا تو کجا ہم مختلف حوالوں سے اپنی قومی سیاست ،اپنی اپنی تاریخ کی بلند درجے پر مطلبی تشریح کرکے یا تو حال کو بہتر کرنے اور مستقبل کو روشن بنانے کے برعکس سب مل کر تاریخ کو مسخ کرنے پر لگے رہتے ہیں یا اس کو بے کار ماضی گردان کر اس پر مٹی ڈالنے کی مجموعی اپروچ رکھتے ہیں ۔حقیقی علم و دانش سے محروم اور تاریخ سے بے نیاز اقوام کا یہ ہی رویہ اور شیوہ ہے، سو ان کی پسماندگی پیچیدگی اور بیچارگی کی بڑے فیصد میں وجہ ان کا اپنی تاریخ سے بے بہرہ ہونا ہے ،بھارتی جدید تاریخ اور حصول پاکستان کی روشن تاریخ کے برعکس پاکستان نے قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی علم وعمل و کمال عزم سے بنے پاکستان کو روشن تاریخ پر مٹی ڈال کر محلاتی سازشوں، علاقائی تعصب، آئین و قانون کی بالادستی کے برعکس سول و ملٹری انتظامی برتری،دھونس دھاندلی اجارہ داریوں، جاگیر داری اور مورثیت کے زور پر چلانے کا زور لگایا اورچلایا ۔اس کے لئے لازم تھا کہ آئین سازی اور حقیقی منتخب اور آئینی حکومت کے امکانات کو کم سے کم بلکہ ختم ہی کر دیا جائے ۔سو 1954کا مسودہ آئین 1956کا متفقہ منظور آئین اور اس کے تحت اعلان ہوئے شیڈول کو پس پشت ڈال کر مارشل لا کی تیاری کی گئی اور پھر لگا دیا ’’اعلیٰ عدالت‘‘ راہ ہموار کرنے کیلئے اپنا حصہ پہلے ہی ڈال چکی تھی لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کوئی بھی مطلوب معیار کا وزیر اعظم نصیب نہ ہوا ،جو مشرقی پاکستان سے میسر ہورہے تھے انہیں واضح تعصب اور مکاری سے دکھاوے کیلئے جلدی جلدی لاکر بدسلوکی اور بدزبانی کرکے ہٹا دیا گیا نتیجتاً آج تاریخ پڑھیں تو مکمل واضح ہےکہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا بیج بویا گیا ۔24سال میں ہی پاکستان کے قیام کی بنیاد ڈالنے والی مسلم لیگ کی جائے پیدائش تحریک پاکستان کے سب سے سرگرم صوبے ’’مشرقی پاکستان‘‘ کی علیحدگی کی فصل تیار ہو گئی ۔پاکستان کو مستحکم و متحد رکھنے والے اور قیام کے مقاصد کا ذریعے بننے والے آئین کی تلاش اور اس پر جھگڑتے لڑتے پہلے عام انتخابات کے باوجود تاریخ پاکستان پرپے درپے حملوں کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔

مشرقی پاکستان کے مغربی سے الگ ہو کر بنگلہ دیش کے آزاد وطن بننے کی تاریخ پاکستان کی بعداز قیام کی تاریخ کا وہ حصہ ہے جو باقیماندہ پاکستان کیلئے سراپا سبق ہے، اس تاریخ کا ایک ایک واقعہ اور اس کا ایک صفحہ حال کی اصلاح اور مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کا سبق باقیماندہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو دیتا ہے ۔جس طرح متعصب ہندو کے غلبے اور فرنگی راج کے عمیق علمی جائزے سے پاکستان بنانے کی راہ نکالی گئی تھی اس کے برعکس پاکستان نے اپنے آغاز کے بعد اپنی روشن تاریخ سے منہ موڑ کر جو کھلواڑ کیا خود کو اس کا بڑا شکار سمجھ کر اور واقعی ہو کر بھی بنگالی بھائیوں نے غیر مستحکم تاریخ سے لڑتے اسے دباتے چھپاتے پاکستان سے بنگلہ دیش نکالا۔ متحدہ پاکستان پہلے 25سال مکمل کرنے سے ایک سال پہلے ٹوٹ گیا۔

باقیماندہ پاکستان کا آغاز اگرچہ پوری قوم نے ملک شکن سانحے کے ایک بڑے سبق سے کیا، کہ قوم نے قیام بنگلہ دیش کے ایک واضح مغربی پاکستانی متنازع کردار ذوالفقار علی بھٹو کو 1970کے ہی انتخابی نتیجے میں ان کی اپوزیشن حیثیت کو نظرانداز کرکے سب سے اکثریتی منتخب نمائندے کے طور بچے ملک کا حکمران بنا دیا، انہوں نے بھی سانحے سے سبق حاصل کرتے متفقہ دستور بنانے کا بیڑا اٹھایا برکت ہوئی ،بن گیا۔ وائے بدنصیبی بنتے ہی ملک پھر زخمی تاریخ کو مکمل جھٹک کر آئین کے برعکس اپنے مہلک مزاج پر چلایا گیا نتیجہ آج 50سال بعد پاکستان سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اپنی تاریخ کے دوسرے بڑے اور کئی لحاظ و اعتبار سے اس سے بھی زیادہ تشویشناک بحران میںہے۔آج پڑھیں یا نہ پڑھیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بحران دیکھا ہے وہ محدود بزرگ نسل، شدت سے سقوط ڈھاکہ کے حالات واقعات کو یاد کرکے سخت پریشان ہے ا گرچہ نوعیت بالکل مختلف ہے لیکن شدت ،فکر اور تشویش کا درجہ اس سے کم نہیں۔اس تناظر میں ملک کے نامور صحافی جناب الطاف حسن قریشی کی سانحہ مشرقی پاکستان پر تادم سب سے مفصل مطبوعہ تاریخ، ’’مشرقی پاکستان ،ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ علمی ، سیاسی، صحافتی حلقوں اور تجزیہ نگاروں میں بہت بروقت پہنچائی جا رہی ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ اور منفرد ہے کہ یہ تاریخ صرف مشرقی پاکستان کی جدائی کی تاریخ نہیں بلکہ برسوں پر محیط اس پرخطر فصل کی تیاری اور بنگلہ دیش بننے کے فوری بعد کے حالات وواقعات کی ایک سچی داستان ہے جو تاریخ پاکستان کے ہر سبق آموز واقع کا احاطہ کر رہی ہے، اس کا اعتبار بلند درجے پر ہے کہ الطاف صاحب مغربی پاکستان سے سقوط ڈھاکہ کی نئی تاریخ کے واحد چشم دید صحافی ہیں جنہوں نے تواتر سے پرآشوب صوبے کے دورے کرکے PARTICIPATION OBSERVATION سے حاصل ہونیوالےمطالعہ و تحقیق پاکستان کی قومی یکجہتی اور نظریہ پاکستان کے نقیب صحافی کے طور پاکستان کی بڑی سیاسی نظریاتی تقسیم میں مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے پس منظر کی جو بھرپور تجزیاتی و کمال تاثراتی رپورٹس مرتب کیں اس میں پروفیشنلزم اور معروضیت OBJECTIVTYکا دامن نہیں چھوڑا۔(جاری ہے)