اسکول جانا شروع کرنے والے کم و بیش 50 فیصد بچے تعلیم شروع کرنے کے قابل نہیں ہوتے

January 30, 2023

لندن (پی اے) اسکول جانا شروع کرنے والے کم وبیش 50فیصد بچے تعلیم شروع کرنے کے قابل نہیں ہوتے، یہ بچے نہ تو اپنے ہاتھ سے کچھ کھانے کے قابل ہوتے ہیں، نہ ٹوائلٹ استعمال کرسکتے ہیں اور نہ واضح طورپر اپنی بات دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں لیکن کم وبیش 90فیصد والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے اسکول کی زندگی کا آغاز کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔پرائمری اسکول ٹیچرز کی رپورٹ کے مطابق ریسپشن کلاس میں آنے والے صرف 54فیصد بچے اسکول کا آغاز کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ سمجھتے ہیں کہ اسکولوں میں انھیں داخلہ دینے پر رضامندی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے دوران ایک ہزار پرائمری اسکول ٹیچرز کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیچرز سمجھتے ہیں کہ 46فیصد بچے ریسپشن میں داخلہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اساتذہ توقع کرتے ہیں کہ بچوں کو کم از کم خود سے ٹوائلٹ استعمال کرنا، کھانا کھانا اور کپڑے پہننا آنا چاہئے، اسی طرح ان میں لکھنے اور بولنے کی بنیادی صلاحیت بھی ہونی چاہئے لیکن 59 فیصد اساتذہ نے رپورٹ دی ہے کہ اس سال بھی معیار سے کمتر بچوں کی تعداد گزشتہ سال سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ گزشتہ سال ستمبر میں ریسپشن کلاس میں داخل ہونے والے بچوں کے ایک ہزار والدین سے کئے گئے ایک علیحدہ سروے میں 89فیصد والدین نے دعویٰ کیا کہ ان کے بچے اسکول جانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکولوں میں ایسے بچوں کو داخلے دینے کے معنی یہ ہیں کہ اسکولوں کو ان بچوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے، کپڑے پہننے اور دوسرے آداب سکھانے کیلئے اضافی عملہ رکھنا پڑے گا۔ ویسٹ مڈ لینڈ کے ایک سینئر ٹیچر نے بتایا کہ اساتذہ کو عام طورپر گوشت اور آلو کھانے کا بھی وقت نہیں ملتا کیونکہ اس وقت وہ بچوں کے گیلے کپڑے تبدیل کرا رہے ہوتے ہیں یا روتے ہوئے بچوں کو خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے ریسپشن کلاس کا بیشتر عملہ بچوں کو سنبھالنے کی وجہ سے اس پوری مدت کے دوران لنچ سے محروم رہا91فیصد اساتذہ نے بتایا کہ ان کی کلاس میں کم از کم ایک بچہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو خود ٹوائلٹ استعمال نہیں کرپاتا، 93فیصد نے بتایا کہ بچے اپنا نام تک نہیں بتا پاتے اور 89فیصد اساتذہ نے بتایا کہ ان کی کلاس میں کم از کم ایک بچہ ایسا ہوتا ہے جو خود سے کچھ کھا بھی نہیں سکتا۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں پر توجہ دینے کے بجائے ایلکٹرانک ڈیوائسز میں لگے رہتے ہیں اور بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنا، کھانا کھانا اور کپڑے پہننا سکھانا اسکول کی ذمہ داری ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس عمر میں بچوں کی رہنمائی اور انھیں بنیادی باتیں سکھاناان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کی ابتدائی عمر ان کی زندگی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے، اسی لئے ہم بچوں کی اوائل عمری میں ریکوری کے لئے اگلے تین برسوں کے دوران کئی ملین پونڈ خرچ کر رہے ہیں، اس میں بچوں کی بولنے کی صلاحیت، زبان اور کمیونی کیشن کی صلاحیت میں اضافے کی کوششیں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ Nuffield Early Languages پروگرام کے ذریعہ دوتہائی پرائمری اسکولوں کی پروگریس حوصلہ افزا ہے جبکہ اس کے علاوہ قومی تدریسی پروگرام کے تحت کم وبیش تین ملین تدریسی کورس بھی کرائے جارہے ہیں۔